• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا محمد قاسم رفیع

رمضان کا آخری عشرہ خصوصی اہمیت و توجہ کا حامل ہے، خصوصاً ان لوگوں کے لئے جو پہلے دو عشرے اپنی غفلتوں کی نذر کرچکے اور اس ماہِ مبارک کو کماحقہ وصول نہ کرسکے۔ ان کے لئے اب آخری موقع ہے کہ اس آخری عشرہ کو اپنے لئے قیمتی بنالیں اور پورا رمضان ضائع کرکے اس بددعا کا مصداق نہ ٹھہریں: ’’ہلاک و برباد ہوجائے وہ شخص جو یہ مہینہ پائے اور اپنی بخشش کا سامان نہ کرسکے۔‘‘ علاوہ ازیں جن احباب نے رمضان کے پہلے دو عشروں کو عبادتوں اور ریاضتوں سے مزین رکھا، ان کے لئے یہ آخری عشرہ پورے رمضان کا خلاصہ، نتیجہ اور ثمرہ ہے۔ 

جیسے درخت سے قیمتی ‘ درخت کا پھل ہوتا ہے، ایسے ہی اعمال سے زیادہ قیمت اعمال کے ثمرہ کی ہوتی ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ’’انّما العبرۃ بالخواتیم‘‘ یعنی اصل اعتبار تو خاتمہ کا ہوتا ہے۔ سو جنہوں نے پہلے دو عشروں میں اعمال صالحہ کی عمارت تیار کی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ آخری عشرہ میں اس عمارت کی تزئین و آرائش کرلی جائے۔ خدانخواستہ آخری عشرہ میں عید کی خریداری کے نام پر بازاروں میں مشغول ہوکر یہ وقت ضائع نہ ہوجائے۔

عشرہ اخیرہ کو قیمتی بنانے والے امتیازی اعمال دو ہیں:...اعتکاف اورشبِ قدر میں عبادت۔ اعتکاف کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے: ترجمہ: ’’اور حکم کیا ہم نے ابراہیم ؑاور اسماعیل ؑکو یہ کہ خوب پاک رکھو میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں کے لئے اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے۔‘‘(سورۃ البقرۃ:۱۲۵)

مسجد اللہ کا گھر ہے اور سب سے افضل مسجد ’’مسجد الحرام‘‘ ہے، چنانچہ مسجد الحرام میں اعتکاف کرنا سب سے افضل ہے، اس کے بعد مسجد نبوی شریف میں اور تیسرے نمبر پر مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) میں۔ اس کے بعد تمام مساجد برابر ہیں، البتہ جس مسجد میں نماز پنجگانہ ہوتی ہو، وہاں اعتکاف کرنا افضل ہے۔ نیز جس مسجد میں اہل اللہ کے مواعظ و دروس ہوتے ہوںاور ان کے دم سے وہاں اصلاح و ارشاد کا سلسلہ قائم ہو تو اس مسجد میں اس نیت کے ساتھ کہ مجھے فائدہ پہنچے گا، اعتکاف کرنا بلاشبہ افضل و بہتر ہے۔ البتہ خواتین کے لئے اپنے گھر کے کسی مخصوص کمرے کے ایک گوشے میں معتکف ہونا اچھی بات ہے۔

اعتکاف نام ہے خانۂ خدا میں عبادت کی نیت کے ساتھ ٹھہرنے کا۔ یہاں اعتکاف کی شرعی تعریف بیان کرنا مقصود نہیں ، اس کے لئے مسائل کی کتابیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اعتکاف میں بندہ خود کو اللہ کے گھر میں لاکر ڈال دیتا ہے اور بزبان حال یوں گویا ہوتا ہے کہ: ’’یا اللہ! تیری رضا کے لئے دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہوں، تیرے حکم پر رکوع و سجود بجالاتا ہوں، تیرے ارشاد کے موافق زکوٰۃ و فطرانہ ادا کرتا ہوں، تیری کتاب قرآن کریم کی تلاوت کر کے تجھ سے ہم کلام ہوتا ہوں، تیرا ذکر کرکے اپنے دل کو تیرے لئے صاف کرتا ہوں، تیرے محبوب پیغمبر آنحضرت ﷺکی بارگاہ میں درود شریف کا ہدیہ پیش کرکے تیری رحمت کا سوالی بنتا ہوں، اب میں تیرے گھر میں آپڑا ہوں اور تیری رحمت و مغفرت، تیری رضا و رضوان، تیری جنت کا طالب ہوں، تیرے غیظ و غضب سے خائف، تیرے عذاب و ناراضی سے ڈرا ہوا اور تیری جہنم سے چھٹکارے کا طلبگار ہوں، اب تیرے گھر سے تجھے مناکر ہی اٹھوں گا۔ ‘‘

عشرہ اخیرہ میں دوسری اہم و امتیازی خصوصیت شبِ قدر ہے۔ قرآن کریم میں پوری ایک سورت ’’سورۃ القدر‘‘ اس کی شان میں اتاری گئی ہے۔ یہ شب ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ گویا پچھلی امتیں جو زیادہ عمر والی ہوتی تھیں اور اس بناء پر زیادہ عبادتیں کرنے کے مواقع پالیتی تھیں، اس امت کی کم عمری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تھوڑے عمل پر زیادہ اجر و ثواب کی بشارت دے دی ہے اور یوں ہمیں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب سمیٹ لینے کے مواقع میسر ہیں۔ اس لئے اس رات کی بے قدری بالکل نہیں کرنی چاہئے۔ 

یہ رات تو ہے ہی قدر والی، اس کی قدر کرکے ہم اپنی قدر بڑھاسکتے ہیں اور اس شب کی بے قدری خدانخواستہ میزانِ اعمال میں ہمارے اعمال کی بے قدری کا باعث ہوسکتی ہے۔یوں تو رمضان کی پہلی رات ہی سے شبِ قدر کی تلاش شروع کردینی چاہئے، اگرچہ مختلف احادیث کی بناء پر شب قدر کا آخری عشرہ میں ہونا زیادہ متوقع ہے، لیکن شروع رمضان ہی سے ہر رات کی قدر اور اس میں حسبِ توفیق عبادت الٰہی میں مشغول رہنا، دراصل ہمیں شب قدر کی برکات کے حصول کے لئے مستعد و تیار رکھنے کا ذریعہ ہے، اس طرح ہماری ہر رات شبِ قدر بن سکتی ہے۔

آنحضرت ﷺ نے امت کو شب قدر کی تلاش میں رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس کا وقت غروب آفتاب سے شروع ہوکر صبح صادق تک رہتا ہے۔ اس شب میں عبادت کرنے والے سے فرشتے مصافحہ کرتے اور اسے سلام کہتے ہیں اور اس کی دعاؤں پر آمین کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے استفسار پر انہیں شب قدر کی یہ دعا تعلیم فرمائی ہے: ’’اَللّٰہُمَّ اَنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘ (یااللہ! آپ بہت معاف کرنے والے اور معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں، یااللہ! مجھے بھی معاف کردیجئے)۔

رمضان کے آخری عشرہ کا اختتام لیلۃ الجائزہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ انعام والی رات ہے۔ پورا مہینہ اہل ایمان روزے، تراویح، تلاوت، دعا اور دیگر عبادات کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خوش ہوکر اس رات میں انہیں نوازتا ہے۔ حضرت ابو امامہ ، حضرت ابودرداء اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے مروی ہے کہ عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) کی راتوں میں عبادت کرنے والے کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔

عیدین کی رات ان راتوں میں سے ہے جس میں مانگی جانے والی دعائیں رد نہیں ہوتیں۔ اس لئے ہمیں اس رات بازاروں میں گھومنے پھرنے اور فضولیات میں ضائع کرنے کی بجائے عبادت پر زور دینا چاہئے۔ عید کی خریداری رمضان سے پہلے کرلینا اچھی بات ہے ، تاکہ رمضان کی قیمتی راتیں اور عید کی اہم رات خریداری کے نام پر نہ گزر جائیں۔اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ جہاں راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی فضیلت مذکور ہے، وہاں اس سے مراد پوری رات جاگنا نہیں ہے، بلکہ طبیعت کی چستی اور نشاط کے ساتھ جس قدر جاگنا ممکن ہو، جاگ کر عبادت کرلی جائے۔ 

طبیعت پر بوجھ نہیں بنانا چاہئے۔ ایک حدیث میں تو عشاء کی نماز باجماعت اور فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے پر پوری رات کی عبادت کا ثواب لکھا جانا بھی وارد ہوا ہے۔ لہٰذا نفل عبادت کے لئے رات بھر جاگ کر فرض سے غافل ہو جانا بڑے گھاٹے کا سودا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے گزرتے دنوں اور آنے والی راتوں کی قدر دانی نصیب فرمائے۔( آمین)