حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن یوں تو عیدی سے نوازنے میں ہمیں کوئی عار نہ تھی مگر جب عیدی دھمکا کر وصول کی جائے تو پسینے وہاں پر چھوٹ جاتے ہیں۔ ویسے تو ہم بے حد بے باک اور بہادر واقع ہوئے ہیں سوائے خدا کے کسی اور سے ڈرنا گناہ سمجھتے ہیں مگر ایک جگہ پر آکر باضمیر لوگوں کی طرح اور اہل ایمان کی خوف خدا سے لرزاں کیفیت کی طرح ہم بھی لرز جاتے ہیں۔ جب آپ کسی کی خواہش کا احترام نہ کریں اور ان کے دل میں محرومی اور خلش بددعا بن جائے اور وہ ’’بددعا لگ نہ جائے‘‘ کے خوف سے ہم اپنے پورے وجود سے کانپ اٹھتے ہیں کہ بے بس و لاچار اور مجبور لوگ دلبرداشتہ ہو کر منہ بھر کر آپ کو بددعا دے سکتے ہیں وہ بددعا آپ کو لگے یا نہ لگے مگر کسی کا منہ بھر کر اور دامن پھیلا کر کچھ کہنا مار جاتا ہے۔باضمیر اور اہل ایمان کی تعریفی مثال ہم نے اس لئے دی ہے کہ انہیں ہی بددعا لگنے کا احتمال ہوتا ہے ورنہ بے ضمیر اور ایمان سے عاری لوگوں کو کسی کی دعا و بددعا سے چنداں فرق نہیں پڑتا اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے ہمارے سیاستدانوں کو بھوک سے تنگ عوام کی بددعا لگ رہی ہوتی اور ان کے اگر ضمیر زندہ اور ایمان پر ہوتے تو یقیناً انہیں بددعا لگنے کا ڈر بھی ہوتا۔ ہوا یوں کہ اس مرتبہ پاکستان کی سیر کا دورانیہ رمضان اور عید تک چلا گیا۔ اس دوران ظاہر ہے کہ کافی سے زیادہ لوگ صدقہ، زکوۃ اور خیرات بانٹنے کا اہتمام کرتےہیں پھر اسی دوران آپ کے ملازم و اردگرد کے غربا آپ سے امید باندھ لیتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ملے گا پھر یہ کہ ان کا حق بھی ہے مگر جب اچھے سے حالات کے لوگ بھی آپ سے عیدی کی توقع رکھنے لگیں تو یوں سمجھئے کہ یہ کوئی برے حالات میں نہیں بلکہ بری نیت میں مبتلا ہیں۔ تو اس مرتبہ عیدی سے متعلق آوازیں کچھ یوں رہیں غربا و مجبور لوگوں نے آواز لگائی ’’باجی عیدی دے کر جانا ہے ہمیں بھی ہم نے عید کا راشن اور بچوں کے کپڑے خریدنے ہیں، ہم غریب آپ کو دعائیں ہی دیں گے، ورنہ کیا دے سکتے ہیں‘‘ یوں لگا کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ ورنہ؟ ہماری دعائیں تمہارے صدقہ زکوۃ سے زیادہ قیمتی ہیں۔ ’’ورنہ! یہ کہ ہم نہیں دیں گے دعائیں‘‘۔ خیر غربا و مجبور لوگوں کا حق ہوتا ہے۔ انہیں ہمیں کیا کافی سے زیادہ لوگوں کو خیرات و زکوۃ دے کر روحانی سکون ملتا ہے ، ویسے بھی عید و رمضان کے مذہبی تہواروں پر دل کھول کر غربا کی مدد کرنا چاہئے کہ اسلام کا نظریہ ہی ا س کی بنیاد ہے کہ غربا و مجبور لوگوں کی دل کھول کر مدد کی جائے۔ ہمارے آقائے مصطفیؐ تو ہر وقت ہی بھوکوں کو کھانا کھلانے کی فکر میں رہتے تھے اور اپنے حصے کا کھانا بھی بانٹ دیا جاتا، پھر آپؐ کی دیکھا دیکھی کئی پیغمبران دین نے یہی وطیرہ اپنایا کہ کسی کو بھوکا نہ رکھا جائے۔ بات ہو رہی تھی عیدی کی کہ عیدی اس لئے دی جاتی ہے کہ ضرورت مند لوگ اس سے عید کے لئے کچھ اہتمام کرلیںلیکن ہمارے لئے ضرورت مندوں کو عیدی سے نوازنا اتنا بھاری نہ پڑا جتنا ایک محکمے میں رشوت کی صورت عیدی کا نام دے کر کچھ رقم دینا پڑی۔ ہوا یوں کہ ایک سرکاری بڑے سے محکمے میںکام کے سلسلے میں کافی واسطہ رہا جب بھی وہاں جانا ہوتا تو آپ کے کام ہوں یا نہ ہوں مگر آپ کو وہاں خاص ’’عیدی‘‘ ضرور دینا پڑتی۔ رمضان کے مہینے میں رشوت کو ایک مقدس سا نام دیا جاتا یعنی ’’عیدی‘‘ اور باقی دنوںمیں رشوت ہی کہا جاتا ہے۔ اب ہماری کام کی باری آئی تو کیا کہ اس کیلئے ہمیں کافی مرتبہ عیدی سے نوازنا پڑا مگر کام تھا کہ آپ کے خلاف شکایت لکھنا پڑے گی تو جواب بے حد رسان سے، اطمینان سے دیا گیا کہ بے شک شکایت لکھئے ، بلکہ وہ تمام احوال لکھئے جو آپ کیساتھ یہاں گزر رہی ہے۔ تمام احوال لکھئے مگر ۔۔۔ مگر ’’عیدی‘‘ ضرور دے کر جایئے۔ اس قدر ڈھٹائی کا مظاہرہ رشوت کھانے والے لوگ ہی کر سکتے ہیں کہ ان کا ڈر خوف نکل چکا ہے کہ ورنہ! آپ کا کام نہ ہوگا۔ اب ہمارا جی تو چاہا کہ رمضان کے مہینے میں جو پوسٹ گردش کرتی ہے وہ ان صاحب کو راہ راست پر لانے کو دکھا دی جائے جس کے الفاظ یوں ہیں۔ ’’اے اللہ! اس مرتبہ ہم نے تجھ سے عیدی لینی ہے اور یہ عیدی تو ہمیں مغفرت کی صورت میں عطاکر‘‘ پاکستان کے حالات بدسے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ترقی کی صورتحال وہی ہے جو پہلے سے تھی یعنی عوام ریلیف حاصل نہ کرسکے۔ وہی ردی مال خریدنے والے گلی گلی آوازیں لگاتے پھرتے ہیں۔ گلی کوچوں میں آج کل بھی سائیکلوں پر رکھ کر سامان بیچا جاتا ہے ۔ یعنی ابھی تک ان کے پاس دکانیں تک نہیں ہیں۔ رشوتوں کا بازار کیسے گرم نہ رہے، ضروریات ہی پوری نہ ہوںتو! تبھی تو یہ لوگ پھر رعب سے رشوت کو لینے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔ آج حال کچھ یوں ہے کہ شرم آتی ہےکہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارہ ہی نہ ہو