فکر فردا۔۔۔ راجہ اخبر داد خان بانی پی ٹی آئی طویل عرصہ سے پاکستان کی عوام سے دور اور قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔ موجودہ پارلیمان کے تمام معزز اراکین میں سے کئی اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہو چکے ہیں جنہیں پی ٹی آئی چیف کا احسان مند ہونا چاہئے، طویل عرصہ تک انتخابات کی بات پی ٹی آئی نہ کرتی تو یقیناً ہم آج بھی کسی عبوری حکومت کے تحت وقت گزار رہے ہوتے، حالیہ تکمیل شدہ انتخابات کا تمام کریڈٹ عمران خان کی قیادت میں اس کی جماعت کو جاتا ہے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں، پی ٹی آئی حکومت کن وجوہات اور امکانات کے درمیان اقتدار سے باہر ہوئی یہ ایک طویل داستان ہے اور قوم کا ایک بڑا حصہ آج بھی دوسروں کی طرف سے دی جانے والی وضاحتوں سے مطمئن نہیں ہو پا رہاباوجود اس کے کہ پی ڈی ایم نمبر ون کی 16ماہ کی حکومت پلس 6ماہ کی عبوری حکومتوں نے مل کر اس جماعت (پی ٹی آئی) اور اس کے قائد کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی کوششوں میں کوئی کسر نہ چھوڑی، پی ٹی آئی قائد کی عوام تک رسائی کے تمام چینل بند کردیئے گئے، اَن انگنت مشکلات کے باوجود عمران خان کا ہمہ وقت یہی پیغام رہا کہ ’’جلد از جلد منصفانہ انتخابات کا انعقاد ملک کے لئے بہترین آپشن ہے‘‘، اس حوالہ سے دوسروں کی کوششوں کی کہانی صفر ہے۔ 22/24ماہ کے اس عرصہ میں نظام نے ایک طرف یہ فیصلہ کرلیا کہ عمران خان کوزیادہ سے زیادہ مقدمات میں الجھا کر سزائیں کروا دی جائیں تاکہ وہ نہ ہی خود انتخاب لڑ سکیں اور نہ ہی ان کی جماعت زیادہ کامیابی حاصل کرسکے۔ واضح نظر آرہا تھا کہ پی ٹی آئی زیادہ نشستیں حاصل نہیں کرسکے گی۔ سیاست کے ترازوں کے ایک پلڑے میں تحریک انصاف تھی اور آج بھی ہے اور دوسرے پلڑے میں سیاسی جماعتوں کا باقی ٹبر، حمایتی اور مخالفین ان دونکات پر متفق اور مطمئن تھے کہ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومتیں بن جائیں گی، سندھ پی پی کا صوبہ ہے، اکثر لوگ اس تجزیہ کو تسلیم کرتے پائے گئے، بالآخر پاکستانی عوام نے 8فروری کے انتخابات میں وہ نتائج دیئے جو بہتوں کیلئے غیر متوقع اور حیران کن تھے مگر پی ٹی آئی قیادت کیلئے یہ نتائج اس کی توقعات کے بہت قریب تھے، اگرچہ پی ٹی آئی قیادت نے ان نتائج کو درست نہیں کہا، ان کے مطابق مرکز میں ان سے کم و بیش 70 سے80نشستیں چھین لی گئی ہیں تاہم ’’حزب اختلاف‘‘ کا مقام ان کو مل گیا ہے، مسلم لیگ (ن) اور پی پی نے مرکز میں اتحاد کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ہے، عمران خان روزانہ کی بنیاد پر مقدمات میں پیش ہو رہے ہیں، نامور وکلا کی نظر میں باقی رہے مقدمات میں بشریٰ بی بی اور ان کے خاوند عمران خان جلد باعزت بری ہوجائیں گے، بانی پی ٹی آئی کے سیاسی کردار کو ختم کرنے والے حالات کی پہلی منزل طے ہوچکی ہے اور آج کے حالات یہ واضح کر رہے ہیں کہ پچھلے دو سال کے عرصہ میں پی ٹی آئی زیادہ مضبوط سیاسی قوت کے طور پر ملک میں موجود ہے، اس کی مقبولیت کا احساس مرکز اور پنجاب کے علاوہ کے پی میں بھی زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے تسلیم کرلیا جانا چاہئے، بانی پی ٹی آئی نے کئی اہم سیاسی معاملات میں غلط فیصلے کرکے خود اپنے اور جماعت کیلئے مشکلات پیدا کیں، انہوں نے ایسی مشکلات کے درمیان الیکشن کمیشن اور مقتدرہ سے جھگڑے مول لے کر اپنے خلاف قوتوں کو اس حد تک متحد کردیا جہاں سیاسی قیادت اپنے اہل و عیال کے ساتھ ان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئی ہے، نئی حکومت بن چکی ہے تمام اطراف کو ملک کو درپیش معاشی مسائل میں پیش رفت کیلئے ایک مستحکم سیاسی ماحول کی ضرورت ہے۔ عمران خان کی سیاسی اور قانونی مشکلات اپنی جگہ مگر وہ اسٹیبلشمنٹ سمیت سبھی سے بات کرنے کیلئے تیار نظر آتے ہیں، ملک کا سیاسی درجہ حرارت کم کرنے اور بات چیت کیلئے آگے بڑھنے کیلئے حکومت کی طرف سے ابتدا ہونی چاہئے تھی، کتنا ہی عظیم موقع ہوتا اگر وزیراعظم خود عمران خان کے پاس چلے جاتے، یقیناً عمران خان کی طرف سے انہیں مثبت جواب ملتا، بدقسمتی سے تاحال ایسا نہیں ہوسکا ہے، اسی وزیراعظم نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو ایک سٹیٹس مین قرار دے رکھا ہے، عوام ان کی ’’سٹیٹس مین شپ‘‘ کو دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر وہ خود عمران خان سے نہیں مل سکتے تو اپنے ’’سٹیٹس مین‘‘ محترم بھائی کو آگے بڑھنے کیلئے درخواست کرسکتے ہیں، بہت لوگوں کا خیال ہے کہ اگر میاں نواز شریف کا چینل استعمال ہوجائے تو ملک ایک مشکل صورتحال سےنکل کر آگے چل پڑے گا، ملک کے اہم ادارے جب کسی بات کا فیصلہ کرلیں تو حالات دنوں میں بہتر ہوجاتےہیں،عمران خان اگر ایسی مثبت سوچوں کا جواب نہیں دیتے تو لوگ ان کے ایسے فیصلوں کو پسند نہیں کریں گے، سیاسی دوریاں کم ہونی چاہئیں اور ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب پہل حکومت کی طرف سے ہو، انتخابات ہوئے دو ماہ سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور حکومت کی طرف سے خاموشی ٹوٹنے کے آثار نظر نہیں آرہے، موجودہ حکومت اپنی پہچان اور ساخت کی بنا پر مضبوط دکھائی نہیں دے رہی، طاقت کے اہم بٹنز پہ حالیہ منتخب سینیٹرز کا کنٹرول ہے اور یہ اہم اشخاص اہم منتخب حکومت ارکان کو خاطر نہیں لا رہے اور کئی کا طرز تکلم عوام آئے دن میڈیا میں دیکھ رہے ہیں، بقول مسلم لیگی قائد رانا ثنا اللہ کے ایسےسینیٹرز کا ایک ہی قبیلہ ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں وزیراعظم ہمارے پراعتماد اور طاقتور وزیر خزانہ کے سامنے ایسے گفتگو کر رہے ہیں جس کا اسکول کا بچہ مانیٹر کے سامنےکھڑا ہو۔ ملک میں استحکام کے حصول کیلئے اور جمہوریت کو بامقصد بنانےکیلئےملک کو ایک آزاد اور متحرک عمران خان کی ضرورت ہے اور ایسے اقدامات میں ہی بین الاقوامی ادارے مثلاً آئی ایم ایف، اقوام متحدہ اور ہمارے ظاہری اور باطنی دشمن ممالک ہماری گفتگو کو سننے کیلئے ٹھہر پائیں گے۔ معیشت اور سیاست کو موثر بنانے کیلئے بانی پی ٹی آئی کو میدان میں گھسیٹ لانا ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے اور جتنا جلدی ہم ایسا ماحول بنا پائیں گے، پاکستان اسی رفتار سے بہتری کی طرف چل پڑےگا۔