ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کا آج (بروز منگل) دوسرا روز ہے۔ جناب ابراہیم رئیسی ایسے ماحول میں پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی عروج پر ہے ایران اور اسرائیل باہم برسر پیکار ہیں اور ایک دوسرے کی تنصیبات پر راکٹوںسے حملے کر چکے ہیں اور کوئی بھی ملک واضح طور پر ایران کے ساتھ کھڑا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ پاک ایران تعلقات کی ایک اپنی تاریخ ہے اور اس تاریخی پس منظر میں ایرانی صدر کا دورہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی نئی حکومت کے انتظام سنبھالنے کے بعد یہ کسی بھی غیر ملکی سربراہ کا پہلا دورہ پاکستان ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایران اور اسرائیل کی باہمی آویزش کے بعد ایرانی صدر بھی پہلے غیر ملکی دورے پر ہیں جسے خود ایرانی وزارت خارجہ انتہائی اہم قرار دے رہی ہے۔پاک ایران تعلقات کی گہرائی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1948 میں ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا جبکہ 1979 ءمیں ایرانی انقلاب کے بعد پاکستان پہلا ملک تھا جس نے خمینی حکومت کو تسلیم کیا۔پاکستان اور ایران کے درمیان ایک ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر 2013 ءتک ایک فوجی بھی تعینات نہ تھا۔بعد میں باہمی رضامندی سے چیک پوسٹیں قائم کی گئیں۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان نے 1949ءمیں ایران کا سرکاری دورہ کیا جبکہ شہنشاہ ایران نے 1950ء میں پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا۔
1965 ءاور 1971 ءکی جنگوں میں ایران پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔انقلاب ایران سے پہلے پاکستان اور ایران ایک ہی عالمی کیمپ کا حصہ تھے لیکن انقلاب ایران کے بعد علاقائی سیاست میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ایران مغرب مخالف کیمپ میں جا کھڑا ہوا جبکہ عرب دنیا کیساتھ اسکے تعلقات کو بھی عرب و عجم کی تاریخی آویزش کے تناظر میں دیکھا جانے لگا۔ایرانی انقلاب کے بعد پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو فروغ ملا اور مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک نے بھی پاکستان میں اپنی پراکسیز قائم کیں۔امریکہ اور عالمی اداروں کی جانب سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے تناظر میں جب ایران پر مختلف پابندیاں عائد کی گئیں تو یہ پاکستان ہی تھا جس نے امریکہ کیساتھ سفارت کاری کیلئےاسےاپنا چینل استعمال کرنے دیا۔2014ءمیں اس وقت کے امریکہ میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے ایک غیر رسمی گفتگو میں کہا تھا کہ ہم گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے امریکہ میں ایران کی جگہ سفارت کاری کرتے آرہے ہیں۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کنڈو لیزا رائس تک ایرانی پیغام پاکستانی چینل کے ذریعے ہی پہنچایا گیا تھاجس میںایران نے کہا تھا کہ وہ پرامن مقاصد کیلئے اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کا خواہش مند ہے۔مارچ 2013ءمیں پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کا آغاز ہوا ایران نے اپنی طرف سے 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا کام مکمل کر لیا ہے لیکن پاکستان میں ابھی تک یہ پائپ لائن محض نواب شاہ تک ہی پہنچ سکی ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کے خدشے کے پیش نظر کوئی بھی مالیاتی ادارہ نہ تو اس منصوبے میں انویسٹمنٹ کرنے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی کوئی تعمیراتی کمپنی اس منصوبے پر کام کرنے کیلئے رضامند ہےجبکہ ضروری ساز و سامان فروخت کرنیوالے ادارے بھی اس منصوبے کیلئے سامان فراہم کرنے کو تیار نہیں۔پاکستان اور ایران کے مابین سرد مہری کا آغاز اس وقت دیکھنے میں آیا جب مئی 2016 ءمیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایران کا دورہ کیا اور پھر ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دینے کیلئے انڈیا ایران اور افغانستان کے مابین سہ فریقی 550 ملین ڈالر کا فنڈ کا قائم کیا گیا۔ایرانی سرحد سے بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری اور اسکے نیٹ ورک سے حاصل شدہ معلومات کے بعد یہ تعلقات مزید سرد مہری کا شکار ہوگئے۔رواں سال کے شروع میں ایرانی فورسز کی جانب سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی اور پاکستان کی جوابی کارروائیوں کے بعد سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے۔ایرانی صدر کا دورہ پاکستان ان تعلقات میں سابقہ گرمجوشی واپس لانے اور اپنی عالمی تنہائی کا تاثر دور کرنے کی کوشش ہے۔دوسری طرف سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں سفارتکاری کے رجحان میںاچانک خوشگوار اضافہ دیکھا گیا ہے۔وزیر اعظم کا دورہ سعودی عرب،سعودی سرمایہ کاروں کا دورہ پاکستان،سعودی وزیر خارجہ اور اعلیٰ عسکری حکام کے پے درپے دوروں نے یہ تاثر دیا ہے کہ ایرانی صدر کے دورے کے باوجود وہ پاکستان کو اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔جبکہ اگلے ماہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان بھی متوقع ہے۔حرمین شریفین اور لاکھوں پاکستانیوں کا ذریعہ روزگار ہونے کے باعث سعودی عرب کو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بنیادی اہمیت حاصل ہے،پاکستان کے زرمبادلہ میں سعودی عرب کی طرف سے پارک کیے گئے اربوں ڈالرز کا بنیادی حصہ ہے۔ایران کی طرف سے اعلیٰ سطحی دورے کے باوجود کسی بڑے بریک تھرو کا امکان ظاہر نہیں کیا جارہا البتہ پاکستان اور سعودی عرب کی میں قربت مزید اضافہ ہوگا۔دونوں ممالک کے مابین دستخط کیے گئے معاہدوں کے نصف پر بھی عمل ہوگیا تو پاکستانی معیشت کو آکسیجن میسر آجائے گی اور مشرق وسطیٰ میں پاکستانیوں کے ذرائع روزگار میں مزید اضافہ ہوگا۔