مارچ کامہینہ آتے ہی اقوام عالم میں عورت کے حقوق، مساوات اورآزادی کے نعرے بلند آہنگ کے ساتھ گونجنے لگتے ہیں۔ اخبارات ایڈیشن نکالتے ہیں۔سول سوسائٹی اور این جی اوز پنج ستارہ ہالوں میں کانفرنسیں کرتی ہیں۔ کروڑوں روپے کے اخراجات سےمختلف سرگرمیاں سرانجام پاتی ہیں۔حکومت بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہتی اور بلند و بانگ دعوئوں کے ساتھ سرکاری تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں مگر عام عورت کی قسمت میں ہر سال وہی محرومی ، مجبوری اور زندگی کی تلخیاں برقرار رہتی ہیں کیونکہ صرف اُسی تلخی ، محرومی اور مجبوری ہی کا ہر طرف آوازہ جوگونج رہاہوتاہے۔ ایسے میں ہر باشعور پاکستانی کایہ فرض ہے کہ حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں زندگی کی ان تلخیوں اور محرومیوں کو بھی کم کرنے کی کوشش کرے اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی ان خوشیوں اور رعنائیوں کابھی ذکر کرے جو ہمارا معاشرہ ، ہماری اقدار اور ہمارا دین ہماری زندگیوں میں شامل کرتاہے۔ اسی سلسلے میں ویمن اینڈ فیملی کمیشن جماعت اسلامی پاکستان کے زیر اہتمام ایک مشاورت میں یہ طے پایا کہ ہم ہر سال کسی ایک نامور مسلم خاتون کو بطور رول ماڈل دنیاکے سامنے لائیں تاکہ ہماری روایتی معاشرے کی غیر اسلامی رسوم کی اڑتی ہوئی دھول میں ان خواتین کا جو موثر کردار زمانے کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے اُسے سامنے لایاجائے۔ چنانچہ اس سال کا یوم خواتین سیرت حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ کو بطور رول ماڈل سامنے لانے کا فیصلہ ہوا۔
انسانی تاریخ میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ طاہرہ ؓ کی طرح کی خواتین کم ہی نظر آتی ہیں جنہوں نے خواتین کے لئے عمل کی راہیں آسان تر اور روشن تر بنائی ہیں۔ اُن کی یہ عظمت تو قابل رشک ہے ہی کہ وہ حضور نبی کریمﷺپر پہلی ایمان لانے والی انسان ہیں۔ مگر اُن کی یہ عظمت ہمای نظروں سے پوشیدہ رہتی ہے کہ انہوں نے خود اپنے لئے اُس ذات بابرکات کو تلاش کیا اور منتخب کیا جس کے لئے اقبال ؒ کہتے ہیں کہ
آیۂ کائنات کامعنی دیریاب تو
نکلے تیری تلاش میں قافلہ ہائے کو بہ کو
انہوں نے عرب کی مالدار ترین خاتون ہوتے ہوئے امیرترین رئوسائے عرب کے رشتے ٹھکرائے اور اُس دُرِّ یتیم کو جسے محبوب دوجہاں بنناتھا۔ اس وقت پہچانا جب ابھی اس کے گوہر کو اللہ نے آشکار نہ کیاتھا۔ یہ حضرت خدیجہ ؓ کی فراست کی انتہاتھی اور ان کے مقدر کی خوش نصیب تابانی کہ حضور نبیﷺنے اپنے سے پندرہ سال بڑی اور دودفعہ بیوہ ہوجانے کے بعد بھی اُن کاپیغام قبول کیا اور روئے زمین کے سب سے بڑے خوش قسمت جوڑے ہونے کااعزاز اُن کے حصہ میں آیا۔
آج یوم خواتین پر حقوق نسواں اور عورت کی آزادی اور مساوات کا بڑاچرچا ہے مگر ہم اُن خواتین کا وہ معاشرتی رول دنیاکے سامنے نہیں لاپا رہے اور نہ ہی اُس پر عمل درآمد کے لئے کوئی طریقہ کار وضع کررہے ہیں۔ حضرت خدیجہ ؓ کا یہ فیصلہ کہ انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ کو خود منتخب کیا۔ اُن کی رائے کی آزادی اور ان کے حقوق کے حاصل ہونے کاایسا اعلان ہے کہ جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ سیرت نبویﷺپر غور کریں تو ایک عرب شاعر نے اُن پر طنز کرتے ہوئے شعرکہاتھاکہ ’’جب سے اس دنیا میں محمد ﷺ آئے ہیں ، عورت کے حقوق کابڑا چرچاہے۔ ‘‘
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر حضرت خدیجہ ؓ کابہت پیار اور احترام سے ذکرکیاکیونکہ انہوں نے وفا محبت اور قربانی کی لازوال داستان رقم کی ہے۔ خاندان نبوت کی ایسی آبیاری کی ہے کہ اُس میں اپنا تن بھی جلایا، اپنے من کو بھی وفا کی بھٹی میں تپایا اور اپنے دھن کو بھی قربان کیا۔ وہ مکہ کی انتہائی کامیاب اور مشہور تاجرہ تھیں جن کے تجارتی قافلے شام اور یمن تک تجارت کے لئے جایاکرتے تھے ، ۔ لیکن پھر شعب ابی طالب کی گھاٹیوں میں تین سال تک حضور اکرمﷺ کے ساتھ ایثار و قربانی کا ایسا رشتہ نبھایا کہ تاریخ اس طرح کی مثال دینے سے قاصر ہے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بطور رول ماڈل سامنے رکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا معاشرہ ان کے تاریخ ساز کردار سے عمل کی راہوں کو روشن کرسکے۔ ہم بھی اپنی عورتوں کو ویسے ہی حقوق دیں ۔ اُن کی اسی طرح سے حوصلہ افزائی کریں ۔ انہیں محبت اور حفاظت کے حصار مہیا کریں کیونکہ ایک روایت کے مطابق بی بی حوا کو حضرت آدم ؑ کی پسلی سے پیداکیاگیا اور پسلی دل کے قریب اور بازو کے نیچے ہوتی ہے۔ عورت کی فطرت کو اسی طور پر پیداکیاگیا کہ وہ محبت سے حفاظت کی محتاج ہوتی ہے اور جس عورت کو بھی یہ حصار میسر آجائیں وہ ہر ناممکن کام کو ممکن کرجاتی ہے۔ ہماری یہ بد قسمتی رہی ہے کہ جس تاریخ اور جس معاشرے کو مردوں اور عورتوں نے مل کر بنایاہے اُس میں سے عورت کو غائب کردیا گیاہے۔ اسی لئے دنیا نے ہماری تاریخ اور معاشرے دونوں کا ادھورا اور ناقص تصور لے لیا ہے۔اسلام کا خوبصورت اور روشن چہرہ دنیا کو دکھانے کے لیے ہمیں ان منور کرداروں کو سامنے لاناہوگا جنہوں نے روایت شکن اقدامات کرکے عورت کو ان کے حقوق دلائے ۔ سب سے پہلے حضور نبی کریمﷺکی ایسی دلجوئی کی اور تسلی کے وہ تاریخی الفاظ رقم کیے جن سے حضور نبی ﷺ کی شفیق ہستی کو وحی کی گران بار ذمہ داریاں سنبھالنے میں ڈھارس ملی۔ وہ نبوت کی پہلی ڈھال بنیں اور ہر جگہ اپنے محبوب شوہر کی غم گساری کی ۔
حضور نبی کریم ﷺنے بھی اُن کی ایسی حوصلہ افزائی کی کہ اُن کی صلاحیتیں اور بھی پروان چڑھیں اور اُن کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوا۔ اُن کے ہوتے ہوئے حضورﷺ نے کوئی اور نکاح نہ کیا۔ یہ بھی اُن کا ایک بہت مبارک اعزاز ہے کہ اُن کی وجہ سے خانۂ نبوت کو اولاد عطا ہوئی ۔اُن کی اتنی منفرد اور بابرکت ذات تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو نوع انسانی کے سب سے مبارک گھرانے کامرکز محبت بنایا۔ عورت اپنے خاندان اور گھر کامرکز محبت ہوتی ہے اسی لئے قرآن کریم میں صنفی مساوات کاذکر کرتے ہوئے اللہ رب العالمین فرماتاہے۔
ترجمہ :جواب میں اُن کے رب نے فرمایا ’’میں تم سے کسی کا عمل ضائع کرنے والانہیں ہوں۔ خواہ مرد ہو یا عورت ،تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور جو میری راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور میرے لیے لڑے اور مارے گئے اُن کے سب قصور میں معاف کردوں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ ا ُن کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزااللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘( سورہ آل عمران:۱۹۵)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد حضرت خدیجہ ؓ نے ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر اسلام قبول کیا اور آپ کی نبوت کی تصدیق کرتے ہوئے آپ پر ایمان لائیں ۔علامہ ابن اثیر اپنی مشہور کتاب اسرالغلبۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں لکھتے ہیں کہ ’’وہ خلق خدا میں سب سے پہلے اسلام لانے والی تھیں۔ اس معاملہ میں نہ کسی مرد اور نہ کسی عورت نے اُن سے سبقت کی۔ ‘‘
ہم بھی آج حضرت خدیجہ ؓ کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے وطن عزیز میں عورت کے لئے راہ عمل متعین کریں ۔ معاشرے میں اُس کے استحصال پر کڑی نظر رکھیں اور اُس کے لئے محبت اور حفاظت کا ماحول بنانے کاانتظام کریں ۔مردوں کے اس معاشرے میں حضور نبی ﷺکی سیرت کی شفقت کو عام کریں اور وہی ماحول بنائیں جس میں زندہ درگور ہوتی عورت کو انسانیت کا شرف ملا۔ سر اٹھاکر جینے کا سلیقہ ملا ، رائے کی آزادی ملی اور اس کی صلاحیتوں کو اُجاگر کیا گیا اور اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ اُس کے خاندان کے مرکز محبت ہونے کے کردار کو ہی اتنی اہمیت دی گئی کہ اُس دور کی عورت کو اس غلط فہمی کا موقع ہی نہ مل سکا کہ گھر ایک قید خانہ ہے۔ اُس نے گھر کو جنت بناکر اُسی کردار کو اتنا فعال طریقے سے ادا کیاکہ اُس نے ایک ایسی نسل تیار کی کہ جس نے وہ معاشرہ تخلیق کیا جو آج بھی ڈیڑھ ارب انسانوں کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتاہے۔ آئیں اس یوم خواتین پر اُنہی مدہم ہوتے ہوئے نقوش کو تازہ کریں جن میں ہمارے پاس دنیا کی امامت بھی تھی اورآخرت کی فضیلت بھی۔ ہم نے اپنی تاریخ بھی فروزاں کی تھی اور ہمارا جغرافیہ بھی پھیل رہاتھا۔ اپنی اُس کھوئی ہوئی عظمت کو بازیاب کرانے کے لئے آئیں حضرت خدیجہ ؓ کے قدموں میں بیٹھ کر اپنے لیے عمل کی راہیں تلاش کریں اور اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں۔