• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ارے پھر مدرز ڈے آگیا ‘‘ پتہ نہیں زندگی اتنی تیز رفتار ہوگئی ہے یا ہمیں لگنے لگی ہے کہ ابھی نیا سال شروع ہوتا ہے اور پلک جھپکتے گذر بھی جاتا ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاید وقت تو اپنی رفتار سے ہی چل رہا ہو لیکن ہمیں ہی اس کا ساتھ دینا نہ آرہا ہو، وجہ چاہیے کچھ بھی ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نئے دور کے چیلنجز بہت ہیں۔

اگر ہم آج کے دن کے حوالے سے بات کریں تو آج کی ماؤں کے لیے بھی بہت مشکل دور ہے۔ ذرا کچھ دہائیوں پہلے کی ماؤں کا سوچئے ان کے بچے کیسے ہوتے تھے۔ ایک ہاتھی، ایک راجہ، ایک رانی کے بغیر بچوں کو نیند نہیں آتی تھی کہانی کے بغیرپانچ چھ سال تک بچے گھر میں مٹر گشت کرتے رہتے تھے، زیادہ سے زیادہ چار سال کی عمر میں بسم اللہ کردی جاتی اور پڑوس کے کسی گھر میں بھیج کر یا دادا، دادی کے پاس بٹھا کر نورانی قائدہ شروع کروادیا جاتا تھا نہ ماں کو نہ بچے کو کوئی فکر ہوتی تھی۔ 

نئی اور پُرانی تمام ماؤں کو سلام

اسکول میں داخل ہوتے تو ماں صبح اسکول بھیج دیتیں،نہ ماہانہ ٹیسٹ کی فکر نہ گریڈز اچھے آنے کی مقابلہ بازی۔ بی اے تک ’’ امی امی میں پاس ہوگیا‘‘ سے کام چلتا رہتا تھا۔ سال کے دو چار جوڑے بن جاتے، عید پر جوتے دلوادئے جاتے جو پورا سال آنے جانے شادی بیاہ میں کام آجاتے تھے۔ ٹیلی ویژن پر الف لیلہ یا عینک والا جن دیکھ کر بچے خوش ہوجاتے اور شام کو گھر کے سامنے تھوڑی دیر کھیلنے کی اجازت ملنے پر پھولے نہیں سماتے۔ اسکول میں ملنے والے ہوم ورک بھی کچھ مائیں اپنی نگرانی میں کرواتی تھیں لیکن زیادہ تر صرف یاددہانی کروا دیتی تھیں کہ چلو اب اسکول کا کام کرلو۔ 

بچے اپنی صوابدید کے مطابق ہوم ورک کر لیتے ٹھیک ہوتا تو ’’ گڈ‘‘ مل جاتا غلط ہوتا تو کاپی پر ’’ بیڈ ‘‘ لکھ دیا جاتا۔اسکول میں شرارت کرتے تو سزا ملتی، ’’ اٹھک بیٹھک ‘‘کر کے ہنستے کھیلتے گھر واپس آجاتے۔ ماؤں کو اس سب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا تھا۔ اب آپ لوگ یہ نہ سمجھنا کہ ہمارے یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ پہلے کی مائیں بچوں کے لئے کچھ نہیں کرتی تھیں۔

ہرگز نہیں! ماں تو ماں ہوتی ہے ’’ ماں‘‘ کا درجہ کسی زمانے میں بھی آج سے کم نہ تھا۔ماں تو نام ہی ایثار، قربانی اور محبت کا ہے۔ہمارے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آج کے دور میں ماؤں کے لئے بہت چیلینجز ہیں جو پہلے نہیں تھے۔ پہلے سادگی تھی اور اب ہر قدم ماؤں کے لئے امتحان موجود ہیں۔ابھی بچہ پیدا نہیں ہوتا کہ اس کو کس اسکول میں داخل کرایا جائے گا یہ فکر شروع ہوجاتی ہے بلکہ بڑے شہروں کے کچھ اسکولوں میں تو قبل از پیدائش رجسٹریشن بھی ہوجاتی ہے۔

پیدائش کے بعد وہی بچے جو پہلے نجانے کیسے پال پوس لئے جاتے تھے اب ان کی ایک ایک حرکت اور عادت پر گوگل سے مدد لی جاتی ہے۔ ظاہر ہے اس میں بھی وقت لگتا ہے، اسکول بھیجنے کا وقت بھی ڈھائی سال میں ہی آجاتا ہے اگر والدین نہ بھی چاہیں تو انہیں بچے کو اسکول بھیجنا پڑتا ہے ورنہ بچہ ’’ لیٹ‘‘ ہوجاتا ہے اور اچھے اسکول میں داخلہ لینے میں مشکلات ہوتی ہیں۔

اسکول میں داخلے کے ساتھ ہی ماں کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور مائیں ماہانہ ٹیسٹ، مڈ ٹرم، سالانہ امتحانات وغیرہ وغیرہ کے چکر میں گھن چکر بن کر رہ جاتی ہیں۔ اچھے گریڈز کی دوڑ بھی ماؤں کو مصروف رکھتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آج کل کے سب سے بڑے چیلنج سے نمٹنا بھی ماؤں کا ہی کام ہوتا ہے، یہ چیلنج بھی یقیناً آپ لوگ سمجھ گئے ہونگے کہ وہ ہے ’’سوشل میڈیا‘‘ آج کی ماں کا اپنے بچے کو موبائل سے دور رکھنا اتنا بڑا چیلنج ہے کہ کبھی کبھی تو مجھے واقعی ماؤں پر ترس آتا ہے کہ انہیں صرف اس ایک چیز سے بچانے کے لئے ہی کتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ 

کچھ سال پہلے تک کے بچے راجہ رانی کی کہانی سے بہل کر نیند کی وادیوں میں کھو جاتے تھے، پلاسٹک کے کھلونے، لکڑی کا چھوٹا سا بلا اور گیند، ہاکی، پلاسٹک کی گڑیا، ہنڈ کلیا، مٹی کے برتن سے کھیل کر بچے خوش رہتے تھے لیکن آج کے بچے کو موبائل چاہیے، ٹیبلٹ یا آئی پیڈ چاہیے، جس پر کارٹون دیکھے بغیر ایک سال سے بھی کم عمر کے بچے کھانا نہیں کھاتے۔ 

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ماں تو وہی ماں ہے جو اپنی اولاد سے بےلوث محبت کرتی ہے ،وہی ماں ، جس کے قدموں تلے جنت ہے، وہی ’’ماں‘‘ کہ جس کی محبت میں نہ پہلے شک تھا اور نہ آج ہے لیکن ہاں آج کے دن آج کے دور کی ان ماؤں کو ہم خصوصی خراج تحسین پیش کریں گے کہ وہ نئے دور کے تقاضوں اور امتحانوں کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاہ رہی ہیں اور اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرنے میں مصروف ہیں۔آج کا دن نئی اور پرانی تمام ماؤں کے نام کہ ’’ ماں‘‘ جیسا تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

چلتی پھرتی آنکھوں سے ماں دیکھی ہے

میں نے جنت تو نہیں دیکھی پر ماں دیکھی ہے