• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
برطانیہ کے حالیہ کونسل اور ’’الیکٹڈمیئرز‘‘ کے انتخابات کے نتائج تمام سیاسی جماعتوں ا ور اقلیتی کمیونٹیز کی بھرپور توجہ اور دلچسپی کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ان انتخابات میں لیبر پارٹی نے کونسلوں میں اپنی نشستوں اور الیکٹڈ میئرز کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ کونسل نشستوں میں لیبر پارٹی نے چارسو سے زیادہ نئی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے اور درجن بھر Hung Councils کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ لیبر پارٹی کیلئے یہ کامیابیاں متوقع تھیں کیونکہ پچھلے کچھ مہینوں سے انہیں کنزرویٹو پارٹی پر مختلف سرویز میں بھاری برتری حاصل رہی ہے۔ وزیراعظم رشی سوناک نے پارٹی قیادت سنبھالتے ہوئے پانچ چیزوں کا وعدہ کیا تھالیکن ان اہداف کو حاصل کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہو رہے۔ ان پانچ اہداف میں سے زیادہ ناکامی انہیں ’’بوٹ پیپل‘‘ کو روکنے میں ہو رہی ہے اور میڈیا بھی اس ایشو پر حکومت کی ناکامی کو خوب اچھال رہا ہے۔ برطانوی ہوم آفس کے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق ایک لاکھ کے قریب ’’بوٹ پیپل‘‘ اس ملک میں داخل ہو چکے ہیں ان نئے آنیوالے لوگوں میں افغانستان، ایران اورترکی سے آنیوالوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ وزیراعظم کا دوسرا وعدہ کہ وہ ٹیکس کم کرینگے بھی مکمل طور پر پورا نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ حکومت نے نیشنل انشورنس میںکمی کی ہے۔ انکا تیسراوعدہ کہ وہ یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس سے علیحدہ ہو جائیں گے بھی تاحال پورا نہیں کیا جاسکا۔ وزیراعظم کا چوتھاوعدہ کہ وہ مہنگائی کو 3% سے کم سطح پر لے آئیں گے، بھی پورا نہیں ہو سکا۔ انکا پانچواں وعدہ امن و امان کو بہتر کرنے سے متعلق ہے ان وعدوں کو پورا کرنے میں وزیراعظم کو جزوی کامیابی ملی ہے اور وہ اگلے چند ماہ میں حالات کے بہترہو جانے کیلئے پرامید ہیں۔ تاہم ان انتخابات میں وہ رائے دہندگان کو انکے حق میں زیادہ ووٹ دینے کیلئے آمادہ نہیں کر سکے۔ اور اس طرح وہ اپنی پارٹی کی تقریباً 500 کونسل سیٹیں ہار گئے۔ انہی نتائج کی بنا پر ان پر دبائو بڑھا کہ وہ مستعفی ہو جائیں مگر کیونکہ مقررہ انتخابات دور نہیں ہیں اب یہی دبائو ان کیلئے پارٹی سپورٹ میں بدل چکا ہے۔پاکستانی / کشمیری کمیونٹیز کا غالب حصہ موجودہ حماس اسرائیل لڑائی شروع ہونے تک لیبر پارٹی میں شامل تھا۔ لیبر پارٹی نے اس جنگ کوروکنے کے لئے ایسے اقدامات نہ اٹھائے جوان کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے مسلمان اراکین پارلیمنٹ ملک بھرکے مسلمان کونسلرز اور ممبران توقع کر رہے تھے۔ اس پر لیبر ممبرشپ کی بھاری تعداد نے جماعت سے استعفے دے دیئے۔ اسی درمیان جارج گیلووے ایم پی کی ورکرزپارٹی نے اس جنگ میں سیز فائر کی کال پر اولڈھم کا الیکشن جیت لیا۔ جارج گیلووے ایم پی کی ’’ورکرز پارٹی‘‘ ایک نئی جماعت ہے اور مسٹر گیلووے کے علاوہ پارلیمنٹ میں اسکاکوئی نمائندہ نہیں ہے۔ راچڈیل انتخابات ایسے موقع پر ہواجب فلسطین ایشو دنیا کی سیاست میں مرکزی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے۔ مسٹر گیلووے طویل عرصہ سے مسئلہ کشمیر اورفلسطین پر ایسے موقف اپنائے ہوئے ہیں جو برطانوی مسلمان کمیونٹیز کے دلوں کے بہت قریب ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ کامیابی انہیں فلسطین اور کشمیر ایشوز پرانکے موقف کی وجہ سے ملی ہے۔ اس جماعت میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو سابق لیبر لیڈر جیرمی کوربن ایم پی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان کونسل انتخابات کے ساتھ کئی جگہوں پر پولیس کمشنرز کا انتخاب بھی ہوا۔ بیڈفورڈ شائر میں پولیس کمشنر کی سیٹ کنزرویٹو پارٹی کے پاس تھی۔ ورکرز پارٹی نے لیبر پارٹی کے ایک اہم سابق رہنما کونسلر راجہ وحید اکبر کو ٹکٹ دیااور انہوں نے اچھے ووٹ حاصل کرکے ثابت کیاکہ مسلم ووٹ ہر مقام پر بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ بہت لوگوں کا خیال ہے کہ کئی شہروںمیں مسلم ووٹ اور بائیں بازو کا ووٹ اگر اکھٹا ہو جائے تو کئی بڑے اپ سیٹ ہو سکتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کو مزید بحث و مباحثے کی ضرورت ہے ۔ یہاں پر با لآخر لیبرامیدوار کامیاب ہوا۔ لیبر پارٹی کیلئے کئی حالیہ سرویز میں یہ واضح ہوا ہے کہ بریڈفورڈ اور برمنگھم کی چند سیٹوں کو چھوڑ کر اگر مسلم ووٹ کا کچھ حصہ ان کو نہیں ملتا تب بھی پارٹی یہ نشستیں جیتنے میں کامیاب رہیگی۔ ایک سیٹ والی ورکرز پارٹی جس کا ڈھانچہ اور کور پالیسز ابھی تک عوام تک نہیں پہنچ پائی ہیں نئے انتخابات بھی چھ ماہ سے زیادہ دور نہیں۔ مسلم ووٹ کا کچھ حصہ اگر اس نئی جماعت کو مل بھی جاتا ہے تب بھی یہ پارٹی سیٹیں نہیں جیت سکے گی۔ صرف کشمیر اور فلسطین پر انتخابات نہیں جیتے جا سکتے۔ دونوں ایشوز کا براہ راست برٹش الیکٹوریٹ سے زیادہ تعلق نہیں ہے۔ جب ہماری کمیونٹیز کا اکثریت ووٹ لیبر پارٹی کو نہیں ملے گا تو ہمارے جیتے ہوئے مسلمان پارلیمنٹ ارکان بھی قیادت سے ہمارے حوالے سے زیادہ pro-active پالیسیاں اختیار کرنے کا مطالبہ نہیں کر سکیں گے۔ ناچیز کا مشورہ ہے کہ لیبرپارٹی کے اندر رہ کر مسلمان ایشوز پر اور عام آدمی کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوششیں جاری رہنی چاہیں۔ فلسطین ایشو کو مسلمانان جو لیبر پارٹی کے اندر ہیں اور جو باہر ہیں سب کی مشترکہ آواز نے اس کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ لیبر پارٹی بہت بڑا پلیٹ فارم ہے جس کو زیادہ موثر بنانے کیلئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ کیا کھویا کیا پایا؟ لیبر اور دوسری بڑی پارٹیوں کو ووٹ نہ دینے کے حوالہ سے میڈیا رپورٹس کے مطابق ہم نے ایک بڑی پارٹی کے خلاف جو رویہ اپنایا اس سے کمیونٹی عزت و وقار کو نقصان پہنچا۔ ہم نے سیاسی ناپختگی کا مظاہرہ کیا اور کئی دیرینہ اور باوقار پارٹی کارکنان کی خدمات کو جذبات کی نذرکردیا۔
یورپ سے سے مزید