ہمارے نوجوانوں میں بے پناہ صلاحتیں ہیں، بس ان کو مناسب تربیت اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ وہ تعلیم، سیاست ، کاروبار اور دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدان میں بھی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ہمیں ہر سطح پراُن کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔ معاشرتی ومعاشی تبدیلیاں بشمول مالی حالات اور لوگوں کا رویہ نوجوانوں کے دل ودماغ پر اثر انداز ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ناروا سلوک اُنہیں ذہنی صحت کے مسائل کا شکار بناسکتی ہے۔
نوعمروں کو منفی تجربات سے بچانا ،ان کی فلاح وبہبود اور ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا معاشرے کی بقا کے لیے بے حد اہم ہے۔ نسل نوبہت حساس ہوتی ہے، انہیں شفقت ومحبت سے سمجھانا بہت ضروری ہے۔ حالات کی ستم ٖظریفی، بیروزگاری، معاشی تنگی اور میرٹ کے فقدان نے انہیں احساس کمتری میں مبتلا کردیا ہے۔ اگر طلبا تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے تو انہیں نظر انداز کرنے کی بجائے پیار ومحبت سے سمجھائیں، برا بھلاکہہ کر ان کے حال پر نہ چھوڑیں۔
اساتذہ اور والدین ان سے دوستانہ ماحول میں بات چیت کریں۔ تعلیمی میدان میں اساتذہ کی مثبت رائے پر ایک طالب علم کے پورے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے اور اگر یہی رائے منفی انداز میں دی جائے تو ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ مایوس ہوکر ہمت ہار دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر وقت تنقید سے نوجوانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ تعلیم کے کسی بھی شعبے میں اور ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے طلبا کو سراہنا چاہیے۔
اُن پر تنقید ہی کرنی ہے تو نرم لہجے میں کریں کیونکہ نرم لہجہ ضمیر جگاتا ہے جبکہ سخت لہجہ ضدی بنادیتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے بیش ترنوجوان زندگی کے مفہوم اور مقصد کی تلاش سے محروم ہیں۔ وہ مسلسل منفی رائے سے اپنے آپ ، حالات، معاشرے اور زندگی سے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو موردالزام ٹھہرا کر خود بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا۔
تعلیمی اداروں ، محلوں، اور ملک میں وہ ماحول ہی نہیں بنایا گیا کہ جونوجوانوں کو ایک ذمہ دار شہری اور بہتر انسان بننے میں معاون ثابت ہوسکے۔ انہیں حوصلے اور اعتماد کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے وہ زندگی بھر سر اٹھاکرجیتے اور کامیابی سے کم پر راضی نہیں ہوتے ۔ حوصلہ افزائی کے بہت سے طریقے ہیں۔
والدین اور اساتذہ ان کی نفسیات پر کھنے کے بعد ان کی اصلاح کریں۔ بصورت دیگر انہیں ہمیشہ کے لیے خود سے دور کر دیں گے۔ سدھارنے کے لیے پہلے ان کی خوبیاں بتائیں، تعریف کریں، اگر پہلے ہی خرابیاں بتادی جائیں گی تو پھر سدھرنے کا امکان کم ہو گا۔ ہر نوجوان جداگانہ فطرت کا حامل ہوتا ہے ان کی نفسیات بھی مختلف ہوتی ہیں، اس بات کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔
اسے اس کی نفسیات کے مطابق سمجھانا چاہیے، لہذا والدین اور اساتذہ غور کریں کہ انہوں نے انہیں سمجھایا یا شرمندہ کیا۔ بہترین استاد وہ ہوتا ہے جو اپنے شاگرد کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دے، ان کا حوصلہ بڑھائیں، ان پر اعتماد کریں تاکہ وہ بلاخوف وخطر آپ سے اپنے خیالات کا تبادلہ اور مسائل کا حل طلب کرسکے۔
حالیہ دور میں والدین، اساتذہ اور نوجوان نسل کے تعلقات کی نوعیت وہ نظر نہیں آرہی ہے جو ہمارے تعلیمی اداروں ماحول میں ہوا کرتی تھی۔ تربیت، ادب واحترام، ہم آہنگی اور تعلقات کا نام ونشان کہیں دور دور تک نہیں ملتا۔ اساتذہ اور طلبا کے درمیان وسیع خلیج ہے۔ پرانے ادوار کے مقابلے میں آج استاد اور شاگرد کے مابین قربت کے بجائے دوریاں ہی دوریاں پیدا ہوتی جارہی ہیں۔
استاد اور طالبعلم کے رویوں میں تبدیلی کی ایک اور بڑی وجہ والدین کی وہ اکثریت بھی ہے جو اپنے بچوں کو استاد کے مقابلے میں حد سے زیادہ اہمیت دے کر بچوں کی نظروں میں استاد کی اہمیت اور مرتبے کو کم کر دیتے ہیں۔ پرانے وقتوں کی ایک کہاوت ہے جو کہ اس دور کے والدین اساتذہ سے کہا کرتے تھے “ کھال آپ کی ہڈی ہماری” مگر آج اگر کوئی استاد کسی غلطی پر شاگرد کو ایک تھپڑ بھی مار دے تو والدین بچے کی حمایت میں اسکول پہنچ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بچے کی نظر میں استاد کی اہمیت، عزت اور ڈر ختم ہو تا جا رہاہے۔ اساتذہ طلبا سے اپنی عزت بچانے کے درپے ہیں، جبکہ موبائل نے انہیں والدین سے بھی دور کردیا ہے۔
ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ بہت سے والدین اولاد کی خوراک، لباس اور تعلیمی ضروریات پوری کرنے کی تو سرتوڑ کوشش کرتے ہیں لیکن ان میں مثبت احساسات، رجحانات اور اعلیٰ سوچ پیدا کرنے کی سعی نہیں کرپاتے۔ بچپن ہی سے سماجی تعلیم اور تربیت کے فقدان کے باعث آج ہمارا معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار نظر آتا ہے۔ نوجوانوں میں ضد اور غصے کی وجوہات بہت گہری ہوتی ہیں۔ بچپن میں ان عادات کو نظر اندازکرنا ان کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
نوجوانوں سے شکایت ہے کہ وہ خودسر، بدتمیز اور بدلحاظ ہوتی جارہی ہے۔ان پہلوؤں پر غور کریں کہ ایسا کیوں ہے۔ خاندان، تعلیم، سیاست اور معیشت وہ ادارے ہیں جو تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ سب بہت اہمیت کے حامل ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی اگر بگڑجائے تو باقی بھی متاثر ہوتے ہیں۔آج معاشرے کے یہ پانچوں ادارے زوال کا شکار ہیں ، ان اداروں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ معاشرے کی بہترین تربیت ہوسکے۔