اسلام آباد(محمد صالح ظافر ،خصوی تجزیہ نگار) ماہ رواں کے وسط میں بی جے پی کے نریندر مودی تیسری مرتبہ بھارت کے وزیراعظم کا حلف اٹھائیں گے تو پاکستان کے لئے اس کی غیر معمولی سفارتی اہمیت ہوگی۔
دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات پانچ سال سے ایک دوسرے کے سفیروں کے بغیر قائم ہیں ۔ دونوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے نہ ہونے کے برابر ہیں.
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو تین ماہ بعد ہی نیویارک میں اپنے پاکستانی ہم منصب شہباز شریف سے پہلی ملاقات کا موقع ملے گا جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سربراہی کانفرنس میں ہوگی حددرجہ قابل اعتماد سفارتی ذرائع نے اتوار کو یہاں جنگ کے استفسار پر بتایا ہے کہ پانچ سال کی معاندانہ حکمت عملی پر کاربند رہنےوالے بھارتی وزیراعظم کے لئے پاکستان کے حوالے سے سوچ میں فوری تبدیلی آسان نہیں ہوگی۔
قبل ازیں نریندر مودی نے اپنے دونوں انتخابات میں اپنے ملک کی آبادی کے بیس فیصد پر مشتمل مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف جھنڈا اٹھا رکھاتھا۔ جس کی بدولت انہیں ہندو اکثریتی رائے دہندگان نے کامیابی دلائی تھی، ا س مرتبہ ان کا ہدف پاکستان سے زیادہ مسلمان آبادی تھی جس میں انہوں نے اپنے اہل وطن کے بنیادی حقوق کو پامال کیا۔ مساجداور دینی درسگاہوں کو ہدف بنایااور مسلمانوں کے نام پر قائم تاریخی شہروں ،قصبات اور سڑکوں کے نام بدل کرانہیں ہندوانہ نام دیئے گئے ۔
بابری مسجد جسے انکے پیشرو کے دور میں مسمار کردیا گیا اس کی جگہ پرشکوہ رام مندر مودی کے دور میں مکمل ہوا۔ اور بابری مسجد کے متبادل جس جگہ کو مسجد کے لئے مخصوص کیا گیا وہ مسلمانوں کے سپرد ہی نہیں کی گئی ۔
ذرائع نے نشاندہی کی ہے کہ ایسے میں جب پاکستان اور بھارت کے ہائی کمشنر ایک دوسرے کے دارلحکومت میں موجود ہی نہیں ہیں کیا بھارتی وزیراعظم خیرسگالی کے روایتی جذبات کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ جس میں وہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباد شریف کو نئی دہلی کے دورے اور حلف میں شرکت کی دعوت دیں گے ۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سال مارچ میں جب شہباز شریف نے وزارت عطمیٰ کا منصب سنبھالا تھا نریندرمودی نے ٹویٹ کے ذریعے انہیں مبارک باد دی تھی جس پر شہبازشریف نے شکریئے کاجوابی ٹویٹ کیا تھا۔
مودی نے پاکستان کا مختصر دورہ نواز شریف کی تیسری حکومت کے آخری مہینوںمیں اس وقت کیا تھا جب وہ افغانستان کا دورہ مکمل کرکے کابل سے نئی دہلی جاتے ہوئے لاہور میں رک گئے تھے جہاں انہوں نے وزیراعظم نوازشریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کی تھی اسے غیر رسمی اور سماجی دورہ قرار دیا گیا جسے دونوں ممالک کے تعلقات میں سدھار لانے کے لئے استعمال نہ کیا جاسکا کیونکہ اس کے بعد نواز شریف حکومت عدالتی سازش کا شکار ہوگئی ۔
اگست2019 میں مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارتی یونین میں ضم کرلیا تھا جس پر پاکستان نے بھارتی ہائی کمشنر کو فوری طور پر اسلام آبادسے نکال دیا تھا جواباً بھارت نے پاکستان کے ہائی کمشنر کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا۔
اس طرح سے پاکستان اور بھارت کے درمیان پانچ سال سے سفارتی تعلقات کمتر درجے پر چل رہے ہیں سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنے روایتی دوست عرب برادر ممالک کی اس تجویز سے اتفاق کررکھا ہے کہ اسے بھارت کے ساتھ اپنے تنازعات بشمول مسئلہ کشمیر پرامن ذرائع سے حل کرنا ہے تاہم اس نے واضح کررکھا ہے کہ اس سلسلے میں ابتدانئی دہلی کو کرناہوگی جسے اسلام آباد قبول کرنے میں تامل نہیں کرے گا۔