انسان اللہ کی عظیم ترین مخلوق ہے، جو اَن گنت خوبیوں، صلاحیتوں سے متّصف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسان اپنی ذہانت، لیاقت اور محنت کی بہ دولت خلا کو تسخیر کرنے میں مصروف ہے۔ تاہم، کوئی بھی کام یابی محنت و مشقّت کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں، یہاں تک کہ تمام انبیائے کرامؑ نے بھی محنت اور کسبِ حلال ہی کو ترجیح دی۔ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ نے تجارت کو بطور پیشہ اپنایا اور اس ضمن میں دُوردراز علاقوں کا سفر کیا۔
علاوہ ازیں، آپؐ اپنے تمام تر کام خود اپنے دستِ مبارک سے انجام دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام ؓنے بھی حصولِ روزگار اور کام یابی و کام رانی کے لیے محنت ہی کو اپنا شِعار بنایا۔ اسی طرح دُنیا کے بڑے بڑے حُکم رانوں، فاتحین، علماء، مفکّرین، سیاست دانوں، ادبا اور شعرا نے بھی ریاضت ہی کے نتیجے میں دُنیا میں نام و مقام حاصل کیا۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ؎ نامی کوئی بغیر مشقّت نہیں ہوا…سو بار جب عقیق کٹا، تب نگیں ہوا۔
بدقسمتی سے ہمارے مُلک کے بیش تر نوجوان آسائشوں کے عادی ہونے کے سبب خاصے سہل پسند ہو چُکے ہیں اور ہر وقت بے روزگاری و بے کاری کا رونا روتے رہتے ہیں، جب کہ بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ ان کی اپنی سُستی و کاہلی بھی ہے۔
اِسی مُلک میں اگر کوئی نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہے، تو کوئی ناخواندہ نوجوان اپنے ہُنر اور محنت سے ہر ماہ لاکھوں روپے بھی کما رہا ہے، کیوں کہ آگے بڑھنے کی لگن اور جستجو ہی کسی انسان کو کام یاب بناتی ہے، جب کہ سَستی شُہرت کے لیے سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال، شارٹ کٹ کی تلاش، عبادات سے دُوری، ترکِ دُعا اور ہاتھ پائوں ہلائے بغیر سب کچھ اللہ پر چھوڑ دینا کام چوری اور محنت سے جی چُرانے کی علامات ہیں۔
ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہمیں دُنیا و آخرت میں سُرخ رُو ہونے کے لیے دن رات محنت کرنی چاہیے کہ مشکلات سے مقابلے اور اہداف کے حصول ہی سے انسان کی خود اعتمادی بڑھتی ہے اور وہ بتدریج ترقّی کی منازل طے کرتا چلاجاتا ہے۔ تاہم، یہ بھی ذہن میں رہے کہ ترقّی کا زینہ چڑھنے کے لیے ہمیں دوسروں کو اپنے پیروں تلے نہیں روندنا، بلکہ اپنی لیاقت اور استعداد میں اضافے کی بدولت آگے بڑھنا ہے۔
یاد رہے کہ ہم نے یہ مُلک بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے اور ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم دُنیا بَھر میں اس کا نام روشن کریں اور اس کے لیے زندگی کے ہر شعبے میں لائق، مستعد، ایمان دار اور محنتی افراد کا ہونا ضروری ہے، جب کہ اس کے برعکس صورتِ حال یہ ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل بہت حد تک بے راہ روی کا شکار ہے۔ بھارتی اور مغربی تہذیب کے اثرات نے اسے نہ صرف دِین سے دُور کر دیا ہے بلکہ سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے اس کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں بھی ماند پڑ گئی ہیں۔
آج ہر دوسرا نوجوان اس کوشش میں ہے کہ وہ بس کسی طرح گھر بیٹھے پیسا کمالے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں بے شمار افراد فری لانسنگ کے ذریعے گھر بیٹھے ماہانہ ہزاروں ڈالرز کما رہے ہیں، لیکن اس کے پیچھے ان کی برسوں کی محنت کارفرما ہے۔
پھر کام چوری اور سہل کوشی ہی کے باعث ہمارے مُلک میں آئے روز گداگروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، یہاں تک کہ بیرونِ مُلک بھی بیش تر پاکستانی بھیک مانگتے ہی دکھائی دیتے ہیں اور یہ طرزِ عمل اقوام عالم میں ہماری رُسوائی کا باعث بن رہا ہے۔
نیز، ہمارے ہاں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں کہ جنہیں اپنے مُلک میں تو محنت مزدوری کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے، جب کہ بیرونِ مُلک حقیر سے حقیر تر کام کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
بہرکیف، دُنیا و آخرت میں کام یابی کے لیے ہمیں محنت ہی کو اپنا شِعار بنانا ہوگا۔ جب انسان محنت اور تن دہی سے کوئی فریضہ سر انجام دیتا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اُس کی مدد کرتا ہے اور اس کام کی تکمیل پر نہ صرف اُس میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے بلکہ ذہنی و قلبی تشفّی بھی حاصل ہوتی ہے۔
دینِ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا ، گویااُس نے اپنے ربّ کو پہچانا۔ اور اپنے آپ کو اور اپنے ربّ کو پہچاننے کے لیے محنت ہی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم غوروفکر ہی نہیں کرتے۔ حدیثِ مبارکہؐ ہے کہ’’ محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے۔‘‘ اور ہم محنت و مشقّت سے جی چُرا کر اللہ کا دوست بننے کی بہ جائے اس کی ناراضی مول لے رہے ہیں اور اسی سبب ہمارے مسائل میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔
تو آئیے، آج یہ تہیہ کریں کہ ہم محنت و لگن کو اپنا شِعار بنائیں گے اور اپنے اپنے شعبہ جات میں کام یابی حاصل کر کے خود کو ایک بہترین مسلمان اور محبِ وطن پاکستانی ثابت کریں گے۔ یاد رہے کہ کُندن بننے کے لیے آگ کی بھٹّی سے گزرنا ہی پڑتا ہے، یہی عالم گیر سچائی ہے۔ اور پھر بانیٔ پاکستان، قائدِ اعظمؒ کا موٹو بھی ’’کام، کام اور صرف کام‘‘ تھا۔ بہ قول الطاف حسین حالی ؎مشقّت کی ذلّت جنہوں نے اُٹھائی … جہاں میں ملی، اُن کو آخر بڑائی۔