عندلیب زہرا، راول پنڈی
ہم اپنے بچپن میں کہانیوں، فیری ٹیلز میں رہتے تھے اور ہماری تصوّراتی دُنیا میں ’’دسمبر‘‘ ایک عُمر رسیدہ، بُردبار، باریش اور مہربان مہینا تھا، جو سب کا گوشوارہ اپنے پاس رکھتا تھا۔
نوے کی دہائی میں پروان چڑھنے والی نسل کے پاس یادوں کی ایک دِل چسپ پٹاری ہے، جس میں بچپن کے رنگ بھی ہیں، نو عُمری کی تتلیاں اور لڑکپن کا بانکپن بھی۔ شاید یہ دَور جدیدیت یا آئی ٹی کی جانب پہلا قدم اُٹھا رہا تھا اور اس لیے بہت نیا لگتا تھا اور نہ بہت پُرانا۔
ہمارے پاس بھی بہت سی سُنہری یادیں ہیں، جن کو دُہرانے سے ہماری آنکھیں جِھلملا سی جاتی ہیں۔ اب پتا نہیں، یہ اُن کی چمک ہوتی ہے یا پیارے رشتوں کی یاد۔ ہمیں اپنے بچپن یا لڑکپن کی خُوب صُورت یاد، دسمبر کی تعطیلات لگتی ہیں، جن کا ہمیں نہایت بےچینی سے انتظار رہتا تھا۔
دسمبر کا آخری ہفتہ ہم سب کے لیے بےحد یادگار ہوتا۔ پی ٹی وی کے رنگارنگ پروگرامز اور این ٹی ایم پرنشر ہونے والی سال کی بہترین انگش موویز دیکھنا، ہیٹر کے پاس بیٹھ کر مونگ پھلی اور ریوڑیاں کھانا، پُرانی کہانیاں سُننا اور سنانا… ان سب لمحات کا حُسن اور لطف ہی جُداگانہ تھا۔
اُس دَور کی سردیاں اس لیے بھی خُوب صُورت لگتی تھیں کہ ہم گیس کی لوڈ شیڈنگ سے ناآشنا تھے۔ ہمیں یاد ہے، ہمارے کزنز موسمِ سرما کی تعطیلات ہمارے ہاں گزارتے اور دسمبر کے آخری ہفتے یا جنوری کے آغاز میں کسی نہ کسی کی سال گرہ ضرور منائی جاتی۔
اس موقعے پر کوئی بناوٹ ہوتی اور نہ نمودو نمائش۔ بس، کیک کاٹ لیا اور کارڈز یا کوئی بھی گفٹ دے دیا، جو کسی کی بھی جیب پر بھاری نہ پڑتا۔ گرچہ ہم اپنی تمام کزنز سے کافی کم عُمر تھے، لیکن اس کے باوجود سب ایک دوسرے کے خاصے قریب تھے اور ہمارے درمیان اس قدر ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی تھی کہ ہم سب خود کو ایک دوسرے کے بِنا ادھورا ہی سمجھتے تھے۔
دسمبر کی آخری سرد راتیں اور بینک روڈ پر ملنے والی گرما گرم کشمیری چائے کا لُطف… دسمبر کے آخری ہفتے میں بُک اسٹالز سے نیو ائیر کے کارڈز خریدنا اور بارہ بجتے ہی ایک دوسرے کو وِش کرنا… یہ سارے یادگار لمحات ہماری مُٹّھی میں قید تھے، لیکن نہ جانے کیسے پِھسل گئے۔ ہوم الون، پرابلم چائلڈ، انسپکٹر جنرل، جراسک پارک اور اِن جیسی مزے دار دوسری ہالی وُڈ موویز آج بھی ہماری دسمبر کی تعطیلات کی یادوں کا حصّہ ہیں۔
کلر مارکرز سے گریٹنگ کارڈز بنانا، ’’تعلیم و تربیت‘‘، ’’آنکھ مچولی‘‘ اور ’’نونہال‘‘ جیسے بچّوں کے رسالے ہیٹر کے پاس لیٹ کر پڑھنا اور کھڑکی کے شیشے سے بارش سے لطف اندوز ہونا… تب یہی ہمارے شوق تھے۔ ہم آج تک اپنی امّی کے ہاتھ کے بنے گرما گرم پراٹھوں کا ذائقہ، جس کا نعم البدل ممکن ہی نہیں، فراموش نہیں کر پائے۔ اسی طرح جب ابّو دفتر سے گھر واپس آتے، تو ہم اُن کے ٹھنڈے ٹھنڈے ہاتھوں پر بوسہ دیتے اور وہ سردیوں کی کوئی نہ کوئی سوغات ضرور اپنے ساتھ لاتے۔
یکم جنوری کو ہماری بڑی بہن کی سال گرہ منائی جاتی تھی اور ہم سب کو یہ تاریخ یاد ہوتی۔ سو، اُس روز گھر میں ایک رونق سی لگی رہتی۔ دسمبر کے آخری دِنوں میں ہمیں یہ فکر لاحق رہتی تھی کہ ہمیں اپنی پسندیدہ ٹیچر کے لیے سب سے پیارا نیو ایئر کارڈ لینا ہے۔
ہوم ورک مکمل کرنا ہے اور سال کا آخری اور نئے سال کا پہلا دن ہنستے کھیلتے گزارنا ہے اور پڑھنا بھی ضرور ہے، کیوں کہ ہمارا یہ عقیدہ تھا کہ جو کام سال کے پہلے یا آخری دن کیا جائے، وہ پورا سال کرنا پڑے گا۔
پھر وقت گزرنے کے ساتھ بہ تدریج تبدیلیاں آتی گئیں۔ کچھ رشتوں نے داعیٔ اجل کو لبّیک کہا، کچھ بےحِسی کا شکار ہوگئے اور کچھ کو مصروفیت نے گھیر لیا۔ بس، ایک بے نام سی اداسی رہ گئی ہے۔
اب ہم ماضی پر نظر دوڑاتے ہیں، تو سمجھ نہیں پاتے کہ تب کم آسائشوں کے باوجود ہماری خوشیاں کیسےمکمل تھیں۔ دسمبر کی مختصر سی تعطیلات اپنے دامن میں ڈھیروں رنگ کیسے سموئے ہوئے تھیں۔ نیندیں خوابوں سے سجی تھیں اور دن کے اجالے مسکراہٹوں اور شرارتوں سے مزیّن تھے۔
شاید وہ دسمبر کوئی اور تھا اور یہ دسمبر کوئی اور ہے۔ گزرا ہوا وقت واپس لانا ممکن نہیں اور بچھڑے ہوئے رشتے بھی نہیں لوٹ سکتے۔ وہ بے فکری اور طمانیت تو شاید عنقا ہوئی، لیکن جو رنگ باقی ہیں، تو کم ازکم اُنہیں ہی اپنی ہتھیلیوں میں سمیٹ لیں، کیوں کہ بہرحال، لمحۂ موجود میں جینا ہی اصل زندگی ہے۔