ہر سال دنیا بھر میں 15 جولائی کو ’’ورلڈ یوتھ اِسکلزڈے‘‘ منایا جاتا ہے اور 2025 ء میں اِس دن کی دسویں سال گرہ منائی گئی۔ اِس ایک دہائی میں یہ دن، محض ایک تقویمی روایت نہیں رہا، بلکہ عالمی سطح پرنوجوانوں کے کردار، قابلیت اور مستقبل کی اہمیت پر ایک بھرپور مکالمہ بن چُکا ہے۔
سالِ رواں کا تھیم "Empowering Youth through Artificial Intelligence and Digital Skills"(مصنوعی ذہانت اورڈیجیٹل اسکلز کے ذریعے نوجوانوں کو بااختیار بنانا) مقرر کیا گیا، جو نہ صرف ایک تیکنیکی رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ ہمیں بطور قوم، بطور تعلیمی نظام اور بطور سماج یہ سوال کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ کیا ہمارے نوجوان واقعی اُس مستقبل کے لیے تیار ہیں، جو تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہا ہے؟
یہ حقیقت اب کسی دعوے کی محتاج نہیں کہ دنیا ایک نئی صنعتی لہر میں داخل ہوچُکی ہے، جسے فورتھ انڈسٹریل ریولوشن کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب کا مرکز آرٹیفیشل انٹیلی جینس، بگ ڈیٹا، روبوٹکس، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور آٹومیشن جیسے عناصر ہیں۔ اِن تمام شعبوں میں مہارت رکھنے والےافراد ہی وہ نئے معمار ہیں، جو آنے والے وقت کی معیشت، سیاست، سائنس، اور سماجی اقدار تشکیل دیں گے، مگر سوال یہ ہے، کیا پاکستان کے نوجوان اس نئے منظر نامے کاحصّہ بننے کے لیے تیار ہیں؟ پاکستان کا تعلیمی نظام، بالخصوص اسکولز اور کالجز کی سطح پر، اب بھی اُس ڈگر پر چل رہا ہے، جو بیسویں صدی کے ابتدائی نصف میں وضع کی گئی تھی۔
ہم اب بھی ایک ایسے تعلیمی سانچے میں قید ہیں، جہاں امتحانی نمبرز کو ذہانت کا پیمانہ، اور ڈگری کو قابلیت کا معیار تصور کیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہمارا سسٹم ہر سال ہزاروں ایسے نوجوان تیار کرتا ہے، جو "Paper Qualified but Un employable" ہوتے ہیں۔
یعنی اُن کے پاس ڈگری تو ہوتی ہے، مگر وہ عملی دنیا کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہمارے نصاب میں کریٹکل تھکنگ، پرابلم سولونگ، کلیبریشن، ڈیجیٹل لٹریسی، اور Entrepreneurial Mindset جیسے تصورات کی یا تو مکمل کمی ہے یا وہ اس حد تک رسمی، کتابی ہوچُکے ہیں کہ طلبہ انہیں زندگی سے جوڑ ہی نہیں پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان کسی بھی عملی میدان میں اُترتےہی خُود کو بےبس، غیرمربوط، مایوس و نا اُمید محسوس کرتے ہیں۔
ہرسال تقریباً دو ملین نوجوان پاکستان میں لیبر مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں، لیکن ’’نیشنل ہیومن ڈویلپمینٹ رپورٹ‘‘ کے مطابق اُن میں سے ایک بڑی تعداد "Skill Mismatch" کا شکار ہو جاتی ہے۔ ان کے پاس جو تعلیم اور تربیت ہوتی ہے، وہ مارکیٹ کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتی۔ ہمارے تعلیمی ادارے نہ تو انڈسٹری اورینٹڈ ہیں، نہ ہی کیرئیرفوکسڈ۔ یہاں نصاب اور مارکیٹ کے تقاضوں کے درمیان ایک گہرا خلا موجود ہے۔
پبلک سیکٹر کےتعلیمی ادارے خاص طور پر اس خلا سے متاثر ہیں، جہاں نہ جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ہے، نہ ہی وہ تربیت یافتہ اساتذہ، جو ان تبدیلیوں کا شعور رکھتے ہوں۔ پاکستان میں( TVET (Technical and Vocational Education and Training کا شعبہ بھی شدید نظراندازی کا شکار ہے۔ بیش تر ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز میں نہ مشینری اَپ ڈیٹڈ ہے، نہ نصاب جدید، اور نہ ہی صنعتی روابط موجود ہیں۔
نتیجتاً فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان وہی پرانی مہارتیں لے کر نکلتے ہیں جو آج کی دنیا میں ناکافی، غیرمؤثر ہیں۔ جب دنیا نوجوانوں کو ڈیٹا انیلسٹک، آرٹیفیشل انٹیلی جینس، بلاک چین، اورسائبرسیکیوریٹی جیسے میدانوں میں مہارت دے رہی ہے، ہم آج بھی ٹائپنگ، بیسک الیکٹریشن اور ویلڈنگ تک محدود ہیں۔
ترقی یافتہ اقوام نے اس بحران کا مقابلہ ایک جامع حکمتِ عملی کے ذریعے کیا۔ جرمنی میں Dual Training System رائج ہے، جس کے تحت طالبِ علم بیک وقت تعلیم اور انٹرن شپ حاصل کرتا ہے۔ فن لینڈ نے پرابلم بیسڈ لرننگ کو تعلیمی فلسفے کا حصّہ بنایا، جہاں طلبہ کو سیکھنے کے لیے حقیقی زندگی کے مسائل دیئے جاتے ہیں۔ جاپان میں صنعت سے مربوط نصاب نافذ ہے، جس میں انڈسٹری کے ماہرین باقاعدہ تعلیمی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
ان ممالک نے نصاب کو تھیوری سے نکال کر’’عملی قابلیت پرمبنی تعلیم‘‘ میں ڈھال دیا ہے، جس کے نتیجے میں ان کے گریجویٹس زیادہ چست، موافق اور اختراعی ہوچُکے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے بیش تر تعلیمی ادارے آج بھی ’’چاک اینڈ ٹاک‘‘کے پرانے طریقۂ تدریس سے چمٹے ہوئے ہیں۔
طلبہ کے پاس نہ پریزنٹیشن اِسکل ہے، نہ ٹیم ورک کی مشق، نہ بات چیت کی مہارت، اور نہ ہی کوئی حقیقی دنیا کے مسائل کا ایکسپوژر اس پر طرّہ یہ کہ کیریئر کاؤنسلنگ جیسے اہم شعبے کا تواکثراداروں میں وجود ہی نہیں۔ طلبہ یہ جان ہی نہیں پاتے کہ اُن کے رجحانات کیا ہیں، مارکیٹ کی کیامانگ ہے، اور اُنہیں کس سمت جانا چاہیے۔
پس ماندہ علاقوں کی حالت مزید افسوس ناک ہے۔ جہاں( ICT (Information and Communication Technology کی سہولتیں سرے سے ناپیدہیں، ای لرننگ پلیٹ فارمز کا کوئی تصوّر ہی نہیں۔ اساتذہ کی تربیت کا کوئی نظام ہے اور نہ ہی کوئی اسسمینٹ کا طریقۂ کار، جو سیکھنے کا معیار جانچ سکے۔ گلگت کے دور افتادہ گاؤں، بلوچستان کے محروم ضلعے، یا اندرونِ سندھ کے کسی پس ماندہ قصبے میں تعلیم کافروغ ایک خواب معلوم ہوتا ہے۔
وہاں کے بچّوں کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جینس اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ اجنبی الفاظ ہیں۔ ایسے میں صرف شہری مراکز پر توجّہ کافی نہیں، ہمیں مساوات پر مبنی قومی تعلیمی پالیسی کی اشد ضرورت ہے، جو ہر بچّے کو یک ساں مواقع فراہم کرے۔ ایک اور خطرناک پہلو، اسکل ڈرین ہے۔ ہمارے جو نوجوان کسی ہنر میں طاق ہوتے ہیں، وہ بہتر مواقع، اچھی تن خواہ اور عزتِ نفس کی تلاش میں بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں، کیوں کہ اُنہیں یہاں شناخت ملتی ہے، نہ ترقی کے مواقع اور نہ ہی اپنے کام کا اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
یاد رکھیں، اگر حکومت نے اس ضمن میں فوری ٹھوس اقدامات پر توجّہ نہ دی، تو یہ نوجوان کسی اور مُلک کی معیشت کو سہارا دیں گے اور پاکستان اپنی سب سے قیمتی سرمایہ کاری سے محروم ہوجائے گا۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات ازسرِنو متعین کریں۔ ہمیں نصاب میں ری انجینیئرنگ کے ذریعے آرٹیفیشل انٹیلی جینس، روبوٹکس، کلائوڈ کمپیوٹنگ، آٹومیشن، انٹرپینورشپ اورسائبرسیکیوریٹی جیسے مضامین کو شامل کرناہوگا۔ TVET انسٹی ٹیوشنز کو جدیدمشینری،سافٹ وئیر ٹُولز، صنعتی مہارت سے آراستہ کرنا ہوگا۔
تعلیمی اداروں میں کیریئر کاؤنسلنگ سیلز قائم کیے جائیں، جو طلبہ کو ان کی دل چسپی، رجحان اورمارکیٹ کی ضروریات کے مطابق رہنمائی فراہم کریں۔ساتھ ہی ہمیں سیکھنے کے عمل کو صرف تعلیم سے نہیں، معاشی خُود کفالت سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔
ایسی پالیسیاں بنانی ہوں گی، جو ’’لرننگ ٹو ارننگ‘‘ کا سفر ممکن بنائیں۔ تعلیم کا اصل مقصد ویلیو کری ایشن ہونا چاہیے۔ ایسا فرد تیار ہو، جو نہ صرف نوکری حاصل کرے بلکہ خودجاب کری ایٹر بن سکے۔ ہمیں ایسے نوجوان چاہییں جوفری لانسنگ، اسٹارٹ اَپس اور سوشل انٹر پرائزز کے ذریعے نئی راہیں کھولیں۔
مصنوعی ذہانت کا عہد شروع ہوچُکا ہے۔ اگر ہم نے اپنے نوجوانوں کو "AI-Driven Economy" کا حصّہ نہ بنایا، تو ہم صرف عالمی مواقع نہیں بلکہ قومی خُودمختاری بھی کھو بیٹھیں گے۔ اب قومیں اُن سرحدوں سے نہیں جانی جاتیں، جو نقشوں پر کِھنچی ہوتی ہیں بلکہ ان صلاحیتوں سے پہچانی جاتی ہیں، جو اُن کے نوجوانوں کے ہاتھ، ذہن اور دل میں پنہاں ہوتی ہیں۔ لوقت کی پکار یہی ہے کہ ہم نوجوانوں کو’’ڈگری ہولڈر‘‘ کے درجے سے نکال کر "Digitally Empowered Skilled Human Capital" (ڈیجیٹل بااختیار ہنرمند انسانی سرمائے) میں تبدیل کریں۔ تب ہی ہم ’’ورلڈ یوتھ اِسکلزڈے‘‘ کی رُوح اپنا پائیں گے۔