• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متفقہ ٹیکس اقدامات چھوڑ دیئے تو 200 ارب روپے کا مالیاتی خلا کیسے پر ہوگا، IMF

اسلام آباد (مہتاب حیدر) معلوم ہوا ہے کہ آئی ایم ایف نے سوال اٹھایا ہے کہ ٹیکس کے متفقہ اقدامات چھوڑنے کے بعد 200ارب روپے کا مالیاتی خلا کیسے پُر ہو گا۔ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو نے تمام بڑے شہروں میں جائیدادوں کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کرلیا ۔ تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف نے ایف بی آر کی جانب سے فاٹا/پاٹا کے علاقوں کے لیے ایک اور مالی سال کے لیے ٹیکس استثنیٰ دینے کے اقدام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور پوچھا کہ 80 سے 100 ارب روپے کے فرق کو دوسرے ریونیو پیدا کرنے والے علاقوں سے کیسے پورا کیا جائے گا۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ حکومت نے ریل اسٹیٹ پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے فروخت کنندگان اور خریداروں کے لیے ایڈوانس ٹیکس کی شکل میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا، گین ٹیکس میں اضافہ کیا اور کمرشل پلاٹوں پر 5 فیصد ایف ای ڈی لگا دیا۔ تمام بڑے شہروں کے لیے جولائی 2024 سے ایف بی آر کی جانب سے جاری کرہ نوٹیفکیشن کے مطابق جائیدادوں کے لیے اوپر کی قیمت کے نرخوں پر نظر ثانی کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہن اب یہ امکانات ظاہر ہو گئے ہیں کہ فنانس بل 2024-25، جو پہلے ہی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے، منظوری ملنے تک کچھ نظرثانی کا مشاہدہ کر سکتا ہے اگر پاکستانی حکام آئی ایم ایف کو 12970 ارب روپے کے ٹیکس وصولی کے انتہائی بڑے ہدف کو پورا کرنے کے لیے قائل کرنے میں ناکام رہے۔ اگلے مالی سال کے لیے ایف بی آر کی سالانہ ٹیکس وصولی کا تخمینہ جاری مالی سال کے لیے 9252 ارب روپے کے نظرثانی شدہ ہدف کے مقابلے 12970 ارب روپے رکھا گیا ہے ۔ 2024-25 کے بجٹ اعلان کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستانی حکام کے ساتھ ظاہر کئے گئے پہلے ردعمل سے انکشاف ہوا کہ آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال کے لیے 12970 ارب روپے کے متوقع سالانہ ٹیکس وصولی کے ہدف کے حصول کے لیے 200 ارب روپے کے خلا پر سوالات اٹھا دیے۔ مثال کے طور پر، حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ اگلے مالی سال کے لیے فاٹا اور پاٹا کے لیے ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے پر اتفاق کیا۔ ایف بی آر نے وفاقی کابینہ کو ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی تجویز دی تاہم وفاقی کابینہ نے مزید مالی سال کے لیے چھوٹ کو جون 2025 کے آخر تک برقرار رکھنے کو ترجیح دی۔ ایف بی آر کے اندازوں کے مطابق صرف اس استثنیٰ سے اگلے بجٹ کے لیے 80 سے 100 ارب روپے کا بھاری نقصان ہو گا۔ سرکاری ذرائع نے کہا کہ کچھ اور ٹیکس مراعات ہیں جن کے لیے مختلف شعبے حکومت کو قائل کرنے کے لیے لابنگ کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے نشاندہی کی ہے کہ 200 ارب روپے کے خلا کا امکان ہے لہٰذا حکومت کو پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے سے قبل اسے 2024-25 کے نظرثانی شدہ فنانس بل کے حصے کے طور پر شامل کرنے کے لیے اضافی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کی مطلوبہ آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حساب لگانے میں انتظامی یا نفاذ کے اقدامات کو قبول نہیں کیا۔ ایف بی آر کو 3.718 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولی میں اضافے کی ضرورت ہے۔ 15.6 فیصد کی معمولی شرح نمو کے ساتھ ایف بی آر ڈیڑھ ٹریلین روپے حاصل کر سکتا ہے لہٰذا بقیہ 2.2 ٹریلین روپے ٹیکس اور نفاذ کے اقدامات کے ذریعے جمع کیے جائیں گے۔

اہم خبریں سے مزید