اسلام آباد (رپورٹ:حنیف خالد) پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما‘ سابق سنیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ وریونیو محمد اورنگزیب کی اقتصادی سروے اور پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران کہی گئی یہ بات درحقیقت تکلیف دہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کی اب نجکاری نہیں ہو سکتی‘ اب اسے سکریپ کے طور پر فروخت کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو جب اُنہوں نے مشرف دور میں چھوڑا تو اُس وقت پاکستان اسٹیل ملز اپنی 90فیصد پیداواری استعداد کے مطابق چل رہی تھی‘ اسکے ذمے کوئی قرضہ نہ تھا۔ انہوں نے جنگ سے گفتگو جے دوران وفاقی وزیر خزانہ کے ریمارکس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو سکریپ کے بھاؤ فروخت کرنے سے پہلے سول‘ میکینکل‘ کیمیکل‘ میٹالوجیکل‘ الیکٹرانکس اور الیکٹریکل انجینئرز کی نئی مشترکہ ٹیم کو موقع پر بھیج کر اس کا معائنہ کرانا انتہائی ضروری ہے۔ یہ قومی اثاثہ ہے‘ اسے کوڑیوں کے مول فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ اسٹیل ملز کا سکریپ بھی کسی کار‘ بس‘ موٹر گاڑی یا ریل گاڑی کا نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے فولاد سازی کے کارخانے کا سکریپ ہے۔ مشترکہ ٹیم کو ساحل سمندر پر نیشنل اور سپر ہائی ویز اور مین ریلوے لائن ایم ایل ون کے ساتھ واقع صرف اس پلانٹ کی 19ہزار ایکڑ زمین کو ہی نہیں دیکھنا ہو گا بلکہ پاکستان اسٹیل کی اپنی جیٹی ہے‘ اپنا سمندری چینل ہے‘ سمندر سے بھٹیوں تک کئی کلومیٹر طویل کنویئر بیلٹ ہے‘ 165میگا واٹ کا پاور ہاؤس ہے‘ 165بیڈ کا ہسپتال‘ 110کلومیٹر کی پکی سڑکیں‘ 72کلومیٹر کی ریلوے لائن‘ سمندری چینل‘ پی سی ہوٹل کے مقابلے کے 50گیسٹ ہاؤسز‘ سکول‘ کالجز‘ بشمول ایک کیڈٹ کالج‘ اسٹیڈیم‘ پارکس اور تقریباً 10کلومیٹر فائبر آپٹکس بچھی ہوئی سرنگوں پر بھی نظر دوڑانا ہو گی۔ پلانٹ کا اربوں ٹن کا لوہا اسکے علاوہ ہے۔ مان لیتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ 19ہزار ایکڑ زمین جس کی 90فیصد زمین کا انتقال مرکزی حکومت کو کروا دیا گیا تھا صرف ساڑھے 4ہزار ایکڑ زمین ہے جس پر پلانٹ اور خام مال رکھا جاتا ہے کی نجکاری ہو گی لیکن یہ بھی خدشہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ باقی سارے اثاثے جن کو سندھ حکومت دوسرے اداروں کو تقسیم کریگی وہ اثاثے بھی تباہی کا شکار ہو جائیں گے۔ ہمارے محترم وزیر خزانہ کی یہ بات تو تکلیف دہ حقیقت ضرور ہے کہ پلانٹ اب سکریپ بن چکا ہے اسلئے اسکی نجکاری یا پبلک سیکٹر میں چلانے کا فیصلہ اب فوراً ہوجانا چاہئے۔