وزیر مملکت خزانہ علی پرویز ملک نے کہا ہے کہ کوئی شک نہیں یہ مشکل بجٹ تھا۔
جیو نیوز کے پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے علی پرویز ملک نے کہا کہ عوام کی تکلیف کا احساس ہے، حکومت کے لیے بھی آسان فیصلہ نہیں تھا۔
علی پرویز ملک کا کہنا ہے کہ اگلے تین سے چار سال میں 100 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی ضرورت ہے، بجٹ آئی ایم ایف کی شراکت داری کے ساتھ بنانا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کے ساڑھے تین ہزار ارب روپے کے ٹیکس کے مطالبے کو پورا کرنا پڑا، چند مہینوں میں ملک میں استحکام آیا، مہنگائی پر قابو پا لیا گیا۔
وزیر مملکت خزانہ کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم سے لے کر کابینہ ممبران تک نہ کوئی تنخواہ لیتا ہے اور نہ مراعات لیتا ہے، 30 سے 40 غیر ضروری محکموں کو بند کیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ جن وزارتوں کی ضرورت نہیں انہیں صوبوں سے مل کر ختم کیا جا رہا ہے، 3500 ارب کے ٹیکس میں سے 70 ارب کے ایڈیشنل ٹیکس تنخواہ دار طبقہ پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہدا کی فیملی کو ٹیکس میں چھوٹ دی جا رہی ہے، نوکری کے دوران انتقال کر جانے والوں کو ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے، جنگ کے دوران زخمی ہونے والوں کو ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے، فوجی اور سول افسران کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والے ایک پلاٹ پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔
علی پرویز نے یہ بھی کہا کہ بجلی کے 50 یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے قیمت برقرار رکھی ہے، 200 یونٹ استعمال پر قیمت 15 روپے فی یونٹ برقرار رکھی ہے۔