• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ۔۔۔۔ مریم فیصل
کنزرویٹو کا 14سالہ حکمرانی کا دور ختم ہوکر لیبر پارٹی پوری طاقت سے اقتدار میں آگئی ہے ۔ٹونی بلیئر کا عراق جنگ کے معاملے پر پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کا الزام ثابت ہونے پر پارٹی اور وزرات سے استعفی دینا لیبر پارٹی کی مقبولیت کو عوام میں کم کرتا گیا اور کنزرویٹو کو ملک کی بڑی سیاسی جماعت ہونے کابھرپور موقع ملا ، 14سال ٹوری پارٹی برطانوی پارلیمنٹ میں پوری طاقت سے براجمان رہی اور شاید اسی طاقت کے نشے نے ٹوری ممبرز نے یہ بھلا دیا تھا کہ انھیں یہ طاقت عوام نے بخشی ہے اور برطانیہ میں جمہوریت ابھی بھی اتنی طاقت رکھتی ہے کہ عوام جس لیڈر کو اپنے سروں پر بٹھاتے ہیں اگر وہی لیڈر عوام کے سروں پر ناچنا شروع ہوجائیں تو اسے اتار پھینکنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے، بریگزٹ کی مثال ہی لے لیجئے ،بڑی عالمی جنگوں کے بعد مزید ایسی جنگوں سے بچنے کیلئے جس یورپی یونین کے ساتھ ہاتھ ملا کر یورپ کیلئے اپنے دروازے برطانیہ نے کھولے تھے ،برطانوی عوام نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ یورپ والے تو ہمارے فری ویلفیئر سسٹم کے مزے لینے کے لئے زیادہ ہی فری ہورہے ہیں تو عوام نے یونین کی طلاق برطانیہ سے کرواکر یورپ سے برطانیہ آنے والوں کے لئے اپنے گھر کے دروازے بند کرادئیے حالانکہ پوری دنیا اسی امید پر تھی کہ بریگزٹ کبھی نہیں ہوگا لیکن پھر اسی دنیا نے بریگزٹ ہوتے دیکھا ۔بالکل یہی حال کنزرویٹو پارٹی کا ہوا ، 14 سال برطانوی عوام پارٹی کے تماشے دیکھتی رہی ۔پارٹی کے لیڈر آتے جاتے رہے اور وزیر اعظم بدلتے رہے ،مہنگائی بڑھتی رہی این ایچ ایس کے حالات خراب ہوتے رہے ،عوام کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہوتا گیا اور جب عوام نے دیکھا کہ بس بہت ہوگیا ، اس پارٹی کو بہت موقع دے دیا گیا اور اب وقت آگیا ہے کہ پارٹی کی چھٹی کروادی جائے ۔اس کے لئے پہلے رواں سال ہونے والے کونسل کے انتخابا ت میں پارٹی کو اشارہ دیا کہ سنبھل جاؤ ہم ناراض ہو گئے ہیں اور یہ اشارہ سابق وزیر اعظم رشی سوناک سمجھ چکے تھے اس لئے انھوں نے انتخابات میں جانے میں دیر نہیں کی اور معاشی امور کی اچھی سمجھ بوجھ رکھنے والے رشی سوناک پارٹی اور ملک کے حالات دیکھ کر یہ اندازہ لگا ہی چکے تھے کہ 15واں سال حکمرانی کے لئے کنزرویٹو کو ملنے والا ہے نہیں اس لئے انتخابات میں شکست تسلیم کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی ۔ ویسے جمہوری ملک کا انداز ہوتا بھی یہی ہے کہ شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے اور اپنی خرابیوں کو درست کرنے میں اپنی طاقت صرف کی جائے،ناکہ دھاندلی د ھاندلی کا الزام لگا کر عوام کو اصل حقیقت سے دور کرنے میں وقت ضائع کیا جائے ، خیر انتخابات ہوگئے، نئے وزیر اعظم نے اپنی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں اور برطانیہ میں جس تبدیلی کا وعدہ کیا تھا اسے لانے میں مصروف عمل ہوچکے ہیں ۔
یورپ سے سے مزید