لندن (پی اے) وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے برطانوی فوج کو زیادہ خطرناک اور مشتعل دنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کے عزم کی تکمیل کیلئے دفاع میں نیچے سے اوپر تک مسائل اور خرابیوں کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، اس جائزے کے دوران مسلح افواج کی موجودہ صورت حال، برطانیہ کو لاحق خطرات اور ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیتوں اور ان کی تکمیل کیلئے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔ سر کیئر اسٹارمر نے پہلے کہا تھا کہ اس جائزے میں قومی آمدنی کے 2.5فیصد مساوی رقم دفاع کے کن شعبوں اور کن مدات پر کس طرح خرچ کی جانی چاہئے۔ جائزے کے دوران فوجیوں، سابق فوجیوں، ارکان پارلیمنٹ اور دفاعی صنعت، دانش وروں، برطانیہ کے اتحادیوں اور عوام سے ستمبر کے آخر تک تجاویز پیش کرنے کو کہا جائے گا اور اگلے سال یعنی2025 کی پہلی ششماہی میں اس کے نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔ سر کیئر اسٹارمر نے کہا میں وعدہ کرتا ہوں کہ ملک کو آگے لے جانے کیلئے ملک کو ترقی دینے کیلئے جہاں ضروری ہوا تبدیلیاں کروں گا، میں وعدہ کرتا ہوں کہ صرف باتیں نہیں کروں گا بلکہ کام کروں گا، یہی وجہ ہے کہ میں نے حکومت سنبھالنے کے بعد سب سے دفاعی شعبے کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہماری مسلح افواج کی طاقت میں اضافہ اور ان کا احترام کیا جائے اور دفاعی شعبے پر ذمہ داری سے اخراجات کئے جائیں اور ہمارا طویل المیعاد بنیادوں پر درکار صلاحیتوں کا حامل ہوجائے۔ اس جائزے کی نگرانی وزیر دفاع جون ہیلی کریں گے اور نیٹو کے سابق سیکرٹری جنرل لارڈ رابرٹ سن اور امریکی صدر کے سابق سفیر فیونا ہل اور سابق جوائنٹ فورس کمانڈر جنرل سر رچرڈ بیرونز اس کی قیادت کریں گے۔ برطانیہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو درپیش سنگین عالمی خطرات اتنے زیادہ پیچیدہ ہوچکے ہیں، جتنے 1990 کی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے کبھی نہیں تھے، وہ بعض مبصرین کی جانب سے اظہار کئے جانے والے ان خیالات کا بھی جائزہ لیں گے کہ برطانوی فوج کو اب کوئی موثر فوج تصور نہیں کیا جاتا۔ نفری کے اعتبار سے اس کی ریگولر فورس دو صدی پہلے کے مقابلے میں اس وقت سب سے چھوٹی فوج رہ گئی ہے۔ بہت سے فوجی اور افسران نظر انداز کئے جانے اور غیر معیاری رہائشی سہولتیں فراہم کئے جانے کی شکایت کرتے ہیں۔ رائل نیوی کو جس نے اپنے 2 طیارہ بردار جہازوں پر بھاری رقم خرچ کی ہے، پوری دنیا میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے مزید جہازوں کی ضرورت ہے، اس کی جوہری آبدوزیں فرسودہ ہوچکی ہیں اور اب بھی خدمات انجام دے رہی ہیں، انھیں 4 ڈریڈ ناٹ کلاس آبدوزوں سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، جن کی قیمت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جائزہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ہیلی نے کہا کہ ہماری فوج کا کھوکھلا پن، پروکیورمنٹ کے زیاں اور مورال کو نظر انداز کئے جانے کی صورت حال جاری نہیں رہ سکتی، برطانیہ کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں، برطانیہ، ناٹو اور اس کے اتحادیوں کے دفاع اور سیکورٹی کے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں یورپ کے مشرقی کنارے پر یوکرین کی جنگ شامل ہے، برطانیہ نے یورپی یونین اور ناٹو کے یوکرین کو اربوں پونڈ مالیت کے اسلحہ اورامداد کی فراہمی اور لڑاکا فوجیوں کی کمی کو دور کرنے کا وعدہ کیا ہے، یہ بالکل بے غرضی پر مبنی نہیں ہے بلکہ روس کے قریب ترین پولینڈ اور بحیرہ بلقان کی ریاستیں ہیں، خدشہ اس بات کا ہے کہ اگر روس کے صدر پیوٹن یوکرین کی جنگ جیت گئے تو وہ اپنی فوج کو مجتمع کر کے ان پر حملہ کریں گے، ان میں بعض ممالک اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس مقصد کیلئے اپنے جی ڈی پی کا 3 بلکہ 4 فیصد حصہ بھی دفاعی تیاریوں پر خرچ کررہے ہیں۔ نیٹو کیلئے چیلنج یہ ہے کہ روس کو نیٹو کے کسی ملک پر حملہ کرنے کا اشتعال دلائے اور تیسری جنگ عظیم کا خطرہ مول لئے بغیر یوکرین کو کیسے زیادہ سے زیادہ اسلحہ فراہم کیا جائے۔ رائل نیوی حال ہی میں بحر احمر میں فعال ہوئی تھی، جہاں وہ امریکی بحریہ کے ساتھ مل کر یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے جہازوں پر حملوں کا دفاع کررہی تھی لیکن برطانیہ نے سائوتھ چائنا کے سمندر اور Aukus معاہدے کے تحت بھی ذمہ داریاں لے رکھی ہیں، جس میں آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں اور جس کا مقصد علاقے میں چین کی توسیع کو روکنا ہے۔ ناقدین نے سوال کیا ہے کہ کیا مالی دشواریوں کے باوجود برطانیہ دنیا کے دوسری جانب کی یہ ذمہ داریاں پوری کرسکتا ہے؟۔ گھر کے قریب یورپ میں روس کی جانب سے شروع کی جانے والی ہائی برڈ جنگ کے خطرات بڑھ رہے ہیں، اس میں زیر سمندر پائپ لائنز اور ٹیلی کام کے کیبلز پر حملہ شامل ہیں، جن پر مغربی ممالک انحصار کرتے ہیں۔ ماسکو کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کی صورت میں روس کی جانب سے ایسے حملوں کا خدشہ ہے اور برطانیہ شاید اپنی پوری ساحل پٹی کہ ہمہ وقت نگرانی نہ کرسکے۔ اس وقت جبکہ روس کے قریب واقع نیٹو کے اتحادی اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کررہے ہیں، برطانیہ دفاعی معاملات پر خرچ کا وقت بھی طے نہیں کرسکا ہے جبکہ اس نے دفاعی اخراجات میں صرف 2.5 فیصد اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن نے دفاعی اخراجات میں اضافے کا وقت ظاہر کرنے سے گریز پر تنقید کی ہے۔ سابق وزیراعظم رشی سوناک نے 2030 تک دفاعی اخراجات 2.5 تک کرنے کا وعدہ کیا تھا۔