• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لخت جگر کے قتل میں والدین قصوروار

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
شناسا خوف کی تصویر ہے اس کی بیاضوں میں
میری بیٹی حسین پنجرے میں اک چڑیا بناتی ہے
وہ پنجرہ بناتی ہے اور پھر خود کو اس میں قید سمجھتی ہے کہ جانے کب صیاد کی منشاء و مرضی سے یہ خوب صورت چڑیا پابند پنجرہ ہوجائیں اور کب آزاد ہوجائیں اور کب انہیں مسل دیا جائے، دبوچ کر اور گلہ دباکر، پھر بھی میکہ سویا رہے۔ پنجرہ اور اس میں بیٹھی چڑیا خود کو چور سمجھتی ہے۔اس معاشرے میں رہ کر وہ اپنے عورت ہونے کو گناہ اور تاسف سے ہاتھ مسل مسل کر جیتی ہے کہ ہم کیوں عورت ہوئیں۔ کون والدین ہیں جو اپنی بیٹیوں کو لخت جگر، آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا اطمینان، چندا، تاروں جیسی رب کی رحمت، حضورؐ کا سلام، آنگن کا پھول و کلی، گھر کی بھولی سی چہچہاتی چڑیا و مینا، رنگ برنگی تتلی، دل و جان سے پیاری رانی، بابا کی راجدھانی کی شہزادی اور جانے کیا کہہ دیتے ہیں۔ یہ والدین اپنی بیٹیوں کو اس لیے کہ مذہب نے بیٹیوں کو اعلیٰ مقام سے نواز رکھا ہے تو احترام میں بیٹیاں تو قبول کرلیتے ہیں مگر معاشرے کا ڈر، خوف کبھی دل سے نکال نہیں پائے، یہ آج کے والدین! ان کے اندر کئی نصیحتیں چھپی ہوتی ہیں، کئی ہدایات، کئی مشورے، کئی خوف، کئی ڈر اور کئی التجائیں چھپی ہوتی ہیں، یہ بتانے کو کہ تم اس گھر کی مہمان ہو اور اگلا گھر تمہارا اصلی گھر ہے۔ انہیں کے تابع رہنا، کبھی اف نہ کرنا، معاشرے میں ہماری ناک نہ کٹوانا، والدین بھائیوں کی لاج رکھنا، یوں کئی خوف اور وسوسوں کے ساتھ لڑکی کو گھر سے رخصت کردیا جاتا ہے۔ پھر وہ اس گھرسے واقعی اپنی لاش لے کر نکلتی ہے، وہ جو ایک خدشہ بچی کے ذہن میں ڈال دیا جاتا ہے کہ ہماری عزت رکھنا اور ناک مٹ کٹوانا، تو وہ یہ کہا پلو سے باندھ لیتی ہے اور پھر اپنے ہر حصے کے ٹکڑے کرالیتی ہے کہ وہاں سے والدین کی انا اور عزت کی دھجیاں نہیں بلکہ باعزت ہونے کے آواز لے آرہے ہوتے ہیں کہ مرتے مر گئی مگر گھر والوں کی لاج رکھ لی کہ عزت دار گھرانوں کی بیٹیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ڈولی گھر سے جاتی ہے اور جنازہ وہاں سے نکلتا ہے۔ گھر والے خوش کہ بیٹی نے لاج رکھ لی۔والدین خواہ امیر ہوں یا غریب مگر بیٹیوں سے اس قسم کی توقع ہی رکھتے ہیں کہ معاشرہ باشعور ہونے کے باوجود صرف اور صرف اپنی بیٹیوں ہی سے عزت کی توقع رکھتا ہے، ہمارے مذہب میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا کہ طلاق یافتہ بیٹی کی بجائے مری ہوئی بیٹی وصول کی جائے اپنے سسرال سے کیونکہ معاشرے کا خوف اور جھوٹی انا و عزت مذہب سے زیادہ ہے۔ یہ معاشرہ بیٹیوں کے والدین کو جینے نہیں دیتا، اگر وہ سسرال میں دکھی بیٹی کو گھر لے آئیں تو اس قدر بدنام ہوتے ہیں کہ بے چاروں کو لوگوں کی باتوں سے چھپ کر رہنا ہوتا ہے۔ ہزاروں قسم کے گھٹیا آوازے ان کے کانوں میں پڑتے ہیں کہ ’’بیٹی کو بسنے نہیں دیا گیا، انہیں والدین کی حمایت نے بیٹی کے پائوں جمنے نہیں دیے، تھوڑی بہت سختی تو سسرال کی سہنا ہی پڑتی ہے۔ ایسی باتیں بنانے والے جب کسی کی بیٹی کے ساتھ بڑا حادثہ ہو تو صرف تماشائی کا کام کرتے ہیں، ہلکا پھلکا دکھ کا اظہار کیا اور بس بات ختم۔ آپ سب ہی سے سوال ہے کہ بیٹیوں کے طلاق کے سرٹیفکیٹ چاہئیں یا پھر موت کے پروانے چاہئیں یا پھر معاشرے کے ظالم لوگوں پر حکومتی اور قانونی سطح پر کارروائی کرکے ان کے مزاج درست کیے جائیں اور ظلم کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لاکر عبرت ناک سزا دی جائے، کسی بھی طرح بیٹیوں پر ظلم کے سلسلے کو بند کیا جائے۔ ہمارے ہاتھوں کی انگلیوں میں سکت نہیں کہ ہم صرف20سال کی ثانیہ زہرہ جس کا قصور یہ تھا کہ وہ کم عمری میں ایک ظالم شخص کے ین بچوں کی ماں تھی، دو بچے پہلے تھے اور تیسرے کی تین یا چار ماہ بعد پیدائش تھی۔ ایسی بچی جو کم عمری میں گھر سنبھال لے اور اپنے بچوں کی خاطر سوہر کو سدھارنے کی خواہش رکھے، وہ کہاں غلط ہوسکتی ہے، جو اپنے والدین کی نام نہاد عزت کی خاطر انہیں سسرال و شوہر کے ظلم و ستم سے آگاہ نہ کرے اور ان سے مار کھاتی رہے، وہ کہاں کسی کو نقصان پہنچایء گی۔ اس کے قتل کی وجہ بے پناہ لالچ اور لڑکے کی گندی عادات تھیں۔ کوئی جہیز کا مسئلہ بھی نہ تھا کہ ثانیہ کے والد نے اسے بہت کچھ دے رکھا تھا۔ کوئی یہ مسئلہ بھی نہ تھا جو عموماً پاکستانی سسرال والوں کو ہوتا ہے کہ بہو نے بیٹیاں پیدا کردی ہیں تو اسے گھر کی محرم سمجھ کر اس پر قیامت ڈھا دی جائے۔ اس بچی کی لاش اسی عروبسی بستر پر ٹنگی تھی جس پر اس نے اپنی پہلی رات میں مستقبل کے سہانے خواب بنے ہوں گے، اسی بستر پر بے رحمی سے اس کے یزید شوہر نے اس کی زبان کاٹی، اس کے دانت توڑے، ہاتھ پائوں توڑے اور پھر لاش کو خودکشی کا رنگ دے دیا کیونکہ ثانیہ زہر کے بھائی نے بھی خودکشی کی تھی تو ظاہر کرایا گیا کہ یہ خاندان خودکشی والا کہہ کر جان چھڑا لی جائے گی۔ بیٹیوں کو پرائی سمجھ کر ان کی خبر نہ لینے وال والدین بھی کافی حد تک مجرم ہیں۔ بیٹی بیاہ دی تو بس ذمہ داری ختم، ذہن سے بوجھ اتر گیا، چین سے سوئیں گے کہ ہمارے گھر سے تو گئی، پرائے گھر والے کیسا بھی سلوک کریں۔ بیٹی کو پرایا سمجھنے والو اسے سسرال والے کیا اپنا سمجھیں گے، بیٹی دے کر سسرال و شوہر کو بتانا پڑتا ہے کہ وہ آج بھی ہماری لخت جگر ہے۔ ویسے ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے بیٹی سے کیسے غافل رہا جاسکتا ہے، ہزاروں ذرائع ہیں بیٹی سے رابطے کیلئے، کوئی شوہر نے اسے پاتال تک نہیں پہنچایا تھا کہ غفلت برتی جاتی، قانون کی مدد بھی لی جاسکتی تھی۔
یورپ سے سے مزید