• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: کیا زکوٰۃ کی رقم سے ایمبولینس گاڑی خریدنا اور اس کا استعمال روڈ ایکسیڈنٹ، فیکٹری کے نزدیکی گاؤں کو فری سہولت دینا اور فیکٹری ورکرز اوران کی فیملی کو ضرورت کی صورت میں فری سروس مہیا کرنا ، جائز ہے ؟ہم نے صاف پانی کے فلٹر پلانٹ اسکولوں، کالجوں، ہسپتال اور پسماندہ علاقوں میں لگا رکھے ہیں ، کیا ان پلانٹ کی سالانہ مینٹیننس کے اخراجات زکوٰۃ کی رقم سے اداکیے جاسکتے ہیں ؟۔ امام مسجد یا کسی غریب خاندان کو مکان یا پلاٹ یا تعمیر کے لیے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے ؟،(شیخ جہانگیر اقبال ، ، ڈسکہ پنجاب )

جواب: آپ کے تمام سوالات کے جوابات سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ زکوٰۃ کی درست ادائی کے لیے مستحقِ زکوٰۃ کو اُس کا مالک بنانا لازمی ہے، تملیک کے بغیر زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ تملیک یعنی مستحق کو مالک بنانا زکوٰۃ کا رُکن ہے، علامہ علاء الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے مال داروں کو (اپنے مال کی) زکوٰۃ ادا کرتے وقت ملکیت میں دینے کا حکم فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور زکوٰۃ دو‘‘، اور ’’اِیْتَاء‘‘ کا معنیٰ تملیک اور مالک بناکر دینا ہوتا ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو صدقہ کہا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا:’’ صدقات فقراء کے لیے ہیں ‘‘، اور صدقہ کرنا تملیک کو کہتے ہیں ، (بدائع الصنائع ،جز ء ثانی، ص:58)‘‘۔

رفاہی ادارے جو مریضوں کے علاج کے لیے زکوٰۃ کی رقم جمع کرتے ہیں، وہ اگر حدودِ شرع میں رہ کر زکوٰۃ خرچ کرنا چاہتے ہیں، تو اس کی چند صورتیں یہ ہیں:(۱) جو دوا نادار مستحق زکوٰۃ کی مِلک میں دے دی جائے گی، وہ جائز ہے۔(۲) ڈاکٹر کی فیس، بیڈ کے کرائے، ایکسرے، میڈیکل ٹیسٹ وغیرہ پر جو خرچ آئے، وہ مریض خود ادا کرے اور استحقاق کے تعین کے بعد شعبۂ زکوٰۃ سے مریض کو ان مصارف کے عوض کل یا گنجائش کے تناسب سے جتنی رقم دی جاسکتی ہے، دے دی جائے یا اس کی اجازت سے اس کے واجبات کی ادائی کردی جائے ۔ (۳)صدقات ِ واجبہ (زکوٰۃ، فطرہ، فدیہ ،نذر اور کفّارات )کی رقوم صرف مسلمان مستحق مریضوں کو دی جائے، غیر مسلم نادار مریضوں کے لیے الگ سے ’’ویلفیئر فنڈ‘‘ قائم کیا جائے جو عطیات پر مشتمل ہو ،یہ نفلی خیرات ،صدقہ اور انفاق فی سبیل اللہ کے زمرے میں آئے گا۔ 

بہتر یہ ہے کہ نفلی صدقہ وخیرات اور عطیات پر مشتمل ایک رفاہی فنڈالگ قائم کریں،جس سے ضرورت مندوں کو علاج معالجے کی سہولیات دیں اور اُسی رقم سے ڈسپنسری کے اخراجات اور کارکنان کی تنخواہیں اداکریں۔

علامہ نظام الدینؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اور زکوٰۃ سے مسجد کی تعمیر، اسی طرح سے پل بنانا اور پانی کے کنویں (یا سبیلیں) بنانا، راستوں کو درست کرنا، نہریں کھودنا ، حج، جہاد اور ہر وہ چیز جس میں ملکیت نہیں ہے ، جائز نہیں ہے، زکوٰۃ سے نہ میت کو کفن دیاجاسکتا ہے اور نہ میت کا قرض اداکیاجاسکتا ہے ،’’تبیین الحقائق‘‘ میں اسی طرح ہے‘‘. آگے چل کر کہا: ’’ اپنے اصول (باپ دادا) اور فروع (بیٹا، بیٹی ،پوتا ،پوتی) کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی ،(فتاویٰ عالمگیری، جلد1، ص:188)‘‘۔

البتہ یہ جائز ہے کہ کسی میت کا وارث فقیر ہے ، اس کو زکوٰۃ دے دی جائے اور وہ خود میت کی تکفین وتدفین پر خرچ کرے یا اس کا قرض ادا کرے، ایمبولینس سے چونکہ نادار اور فقیر سب استفادہ کرتے ہیں، اس لیے زکوٰۃ کی رقم سے خریدنا جائز نہیں ہے، البتہ ایمبولینس خرید لی جائے، اس پر ڈرائیور بھی رکھ لیاجائے، مالدار سے اس کا خرچ لے لیاجائے اور فقیر کی اجازت سے اس کے واجبات زکوٰۃ سے ادا کردیے جائیں، اس لیے آپ کو نگرانی کا ایک انتظام قائم کرنا ہوگا۔ 

آپ نے اپنے سوال میں جن مصارف کا ذکر کیا، اُن میں سے کسی بھی مصرف میں تملیک کی شرط پوری نہیں ہوتی ، البتہ امام مسجد اور کسی غریب خاندان کے لیے رہائش کا انتظام، مکان یا پلاٹ کی تعمیر زکوٰۃ کی رقم سے کر واسکت ے ہیں کہ اُسے مالک بنادیں۔ کسی نادار فقیر اور مستحقِ زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی رقم سے مکان یا فلیٹ بناکر دیا جائے تو اُسے شرعی اور قانونی طور پر اس کامالک بنانا ضروری ہے اور زکوٰۃ کی رقم سے مکان بناکر دینے والے فرد یا فلاحی جماعت کو اس کے مالکانہ تصرُّف پر پابندی لگانے کا کوئی اختیار نہیں۔ 

کیوںکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک ( مالک بنانا)شرط ہے، یعنی جس مستحق کو زکوٰۃ نقد یا پلاٹ یامکان کی صورت میں دی جارہی ہے، اُسے اُ س مال پر تصرُّف کا مکمل اختیار حاصل ہونا چاہیے اور کسی بھی طرح کی شرائط سے آزاد ہونا چاہیے۔ واٹر فلٹر پلانٹس کی مرمت وغیرہ کے اخراجات زکوٰۃ کی رقم سے کرنا درست نہیں ہے، اگرچہ ازروئے حدیث پانی فراہم کرنا افضل صدقاتِ جاریہ میں سے ہے۔

اقراء سے مزید