پروفیسر خالد اقبال جیلانی
اسلام اپنے معاشرتی نظام میں خاندان کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور خاندان کو معاشرے کی بنیادی اکائی قرار دیتا ہے تو دوسری طرف والدین کو خاندان کی بنیادی اکائی، اس بنیادی اکائی یعنی والدین کے بغیر انسانی معاشرے کی تاسیس و تشکیل اور تعمیر ممکن ہی نہیں انسانی رشتوں کی بنیاد ماں باپ ہی ہیں، ماں باپ کی بقاء پر معاشرے کی بقا کا انحصار ہے۔
معاشرے میں انسان کو جن ہستیوں سے سب سے زیادہ مدد ملتی ہے، وہ والدین ہی کی ہستی ہے جو صرف اولاد کو وجود میں لانے کا سبب ہی نہیں، بلکہ اس کی پرورش کا بھی ذریعہ ہیں۔ والدین اپنی راحت اولاد کی راحت پر، اپنی خواہش اولاد کی خواہش پر اور اپنی خوشی اولاد کی خوشی پر نثار کر دیتے ہیں اور والدین کا یہ ایثار اور قربانی بلا غرض اور بے لوث ہوتا ہے۔
قرآن و حدیث کے احکام میں بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و عبادت کے بعد سب سے زیادہ اہمیت و فضلیت کا حقدار و الدین ہی کو قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم کا انداز بیان یہ ہے کہ وہ پہلے حقوق کی ترتیب کو طے کرتا ہے، اس کے بعد تفصیلات کو، اس ترتیب میں والدین سرِ فہرست ہیں۔
والدین کا ادب و احترام اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا ہر عقلِ سلیم رکھنے والاہر شخص قائل ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب و ملت سے ہو۔ قرآن وحدیث میں متعدد مقامات پر والدین سے حُسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے، ان تعلیمات کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔ ترجمہ: ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ ‘‘ (سورۃالبقرہ ۸۳)
’’جو کچھ تم مال خرچ کرو تو اس میں ماں باپ کا حق ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ ۲۱۵)’’اور تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرو۔ (سورۃانساء ۳۶) آپ ﷺ فرمادیجئے کہ آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں، جنہیں تمہارے رب نے تم پر حرام فرمایا ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کیا کرو۔ (سورۂ انعام ۱۵) اور سورۂ بنی اسرائیل میں تو والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، ان کے ادب و احترام اور خدمت کے بارے میں بے مثل وبے نظیر آفاقی احکام عطا فرمائے ہیں، ارشاد ہوا۔ ’’اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجزو اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور (تم ) اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں کبھی (ہاں سے) ہوں تک مت کہنا اور نا ہی انہیں جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اورا ن کے سامنے عاجزی سے جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار، ان دونوں(ماں باپ ) پر رحم فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم کیا تھا’’(سورۂ بنی اسرائیل ۲۳--۲۴) والدین اگر مشرک ہوں توبھی اللہ نے ان کی اطاعت کو اپنی وحدانیت پر ایمان اور شرک سے اجتناب کے ساتھ مشروط کیا۔
فرمایا گیا: ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرا کہ جس کی کوئی دلیل تیرے پاس نہیں تو ان کا کہنا نا ماننا۔ (سورۃ العنکوب ۸)
ماں باپ دونوں میں سے اولاد کی پیدائش پرورش و نگہداشت میں ماں کی محنت و مشقت اور تکالیف کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے ماں کو باپ پر ایک درجہ فوقیت دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے حوالے سے تاکید کی ہے’’ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف (مشقت پر مشقت ) اٹھا اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کر‘‘۔ (سورۂ لقمان ۱۴) والدین سے حسنِ سلوک کی یہ تعلیمات صرف امتِ مسلمہ ہی کو نہیں دی گئیں، بلکہ ہر نبی کی امت کو والدین سے حسنِ سلوک، اُن کے ادب احترام اور ادائیگی حقوق کی تلقین کی گئی۔
قرآن کریم کے بعد احادیث اور سنتِ نبوی ﷺ میں بھی ہمیں بڑی شدت کے ساتھ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ، ان کے ادب و احترام اور حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے تاکید ملتی ہے، ان احکامات ِ نبوی ﷺکا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ـ: ’’اس کی ناک خاک میں مل گئی، ’’اس کی ناک خاک میں مل گئی، ’’اس کی ناک خاک میں مل گئی، (یہ ایک عربی محاوہ ہے جس مطلب ہے کہ وہ تباہ و برباد ہوگیا) صحابہؓ نے عرض کیاکہ یا رسول اللہ ﷺ کس کی ناک خاک میں مل گئی، یعنی کون تباہ و برباد ہوگیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ میں سے دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا(اور پھر اُن کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہیں ہوا، (گویا ایسا شخص دنیا و آخرت میں تباہ و برباد ہوگیا۔‘‘)(صحیح مسلم)
آپ ﷺ نے فرمایا:’’کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ پر لعنت بھیجے، فرمایا کہ کوئی کسی کے والد کو گالی دیتا ہے تو گویا وہ اپنے باپ کو گالی دیتا ہے، کسی کی ماں کی گالی دیتا ہے تو گویا وہ اپنی ماں کو گالی دیتا ہے‘‘۔(صحیح بخاری) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ والدین سے قطع تعلق کرنے انہیں گھر سے نکالنے والی اولاد جنت میں داخل ہی نہیں ہو سکتی‘‘(صحیح مسلم)
جہاں اولاد کے لئے جنت کو ماں کے قدموں تلے ڈال دیا گیا، وہاں باپ کی خوشنودی کو اللہ کی خوشنودی اور باپ کی ناراضی کو اللہ کی ناراضی قرار دیا،‘‘(سنن ترمذی) فرمایاگیا : اللہ انسان کے سارے گناہ بخش سکتا ہے، مگر والدین کے نا فرمان کو معاف نہیں کرتا۔(صحیح مسلم) مزید فرمایا گیا کہ ماں اور باپ انسان کی جنت اور جہنم ہیں۔
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور اُن کی اطاعت صرف ایک الہامی حکم ہی نہیں، بلکہ ایک معاشرتی تقاضا ، عُمرانی خوبی اور خاندانی ضرورت بھی ہے۔ جو معاشرے پر دوررس اثرات کی حامل ہے، خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی اور والدین خاندان کی بنیادی اکائی ہیں، اس لئے والدین سے اچھا برتاؤ اور ان کا ادب و احترام معاشرے کو ایثار و قربانی، ہمدردی و مواسات اور محبت و اخوت جیسے اعلیٰ انسانی جذبات سے مزین کرے گا۔ والدین کی اطاعت و فرماں برداری معاشرتی ہم آہنگی اور یکجہتی کو فروغ دینے کا باعث ہوتی ہے، اس کے بر خلاف والدین کے ساتھ بدسلوکی کے رویے سے معاشرے میں نافرمانی اور انتشار کی فضا عام ہوگی۔