لندن، لوٹن( سعید نیازی،شہزاد علی)سائوتھ پورٹ واقعہ کے بعد مختلف شہروں میں دائیں بازو کے افراد کی ہنگامہ آرائی جاری جاری ہے،سنڈرلینڈ میں پولیس سٹیشن پر حملہ کیا گیا جب کہ سٹیزن ایڈوائز بلڈنگ نذرآتش کردی گئی،پتھرائو سے3پولیس افسران زخمی ہوگئےجس کے بعدآٹھ افرادگرفتارکرلیاگیا،عبداللہ مسجد لیول پول کے باہر انتہاپسندوں نےمظاہرہ کیاتاہم مسلمانوں اوردیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے نفرت مسترد کرنے کاعزم ظاہر کیاہے۔ دوسری جانب وزیراعظم سرکیئرسٹارمر نے سائوتھ پورٹ کادورہ کیا۔ انہوں نے متاثرین سے اظہاریک جہتی جب کہ ان کے لیے سپورٹ پیکیج کااعلان کیا۔انہوں نے مقامی رہنمائوں،طبی عملے،پولیس افسران سے ملاقات کی اورافسوسناک واقعہ پر اظہار افسوس کیا،وزیراعظم لیورپول کے ایلڈر ہی ہسپتال بھی گئے۔ تفصیلات کے مطابق سائوتھ پورٹ میں 17 سالہ نوجوان کی جانب سے بچوں پر حملے کے بعد 3 بچوں کی ہلاکت کے بعد دائیں بازو نے پروپیگنڈا کیا کہ حملہ آور مسلمان اور اسائلم سیکر تھا اور وہ سمندر کے راستے کشتی کے ذریعے غیر قانونی طور پر برطانیہ آیا تھا،اس پروپیگنڈ ے کے بعد مختلف شہروں میں فسادات شروع ہوگئے جو بدستور جاری ہے۔ جمعہ کی شب دائیں بازو کی جانب سے سنڈرلینڈ اور لیورپول میں فساد کیا گیا، سنڈر لینڈ سٹی سینٹر میں جمع ہونے والے سیکڑوں دائیں بازو کے افراد نے پولیس سٹیشن میں توڑ پوڑ کی اور اس سے متصل سٹیزن ایڈوائز کی عمارت کو آگ لگا دی۔ مسجد کی حفاظت کرنے والے پولیس افسران پر اینٹیں اور بیئر کین پھینکے گئے، جس سے تین پولیس افسران زخمی ہوگئے۔ پولیس نے ہنگامہ آرائی کرنے والے آٹھ افراد کو گرفتار کر لیا، دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے اس اختتام ہفتہ پر دو درجن سے زائد مزید مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ ہوم آفس کے منسٹر لارڈ ڈیوڈ بنسن نے متنبہ کیا ہے کہ ہنگامہ کرنے والوں پر پولیس کی نظر ہے۔ انتہا پسندوں کی کارروائیوں کے بعد ملک بھر میں مساجد کی سیکورٹی کیلئے اقدامات بھی کئے گئے ہیں۔ جمعہ کی شب سنڈرلینڈ اور لیورپول میں ہنگامہ آرائی کی گئی، نارتھمبریا پولیس کے چیف سپرنٹنڈنٹ بیلینا بیرن نے کہا ہے کہ پولیس افسران کو شدید ہنگامہ آرائی کا مقابلہ کرنا پڑا، اس حوالے سے تفصیلی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے اور ملوث افراد کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس قسم کا رویہ اور تشدد کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہوم سیکرٹری یوریٹ کوپر نے کہا ہے کہ پولیس پر حملے کرنے والے جرائم پیشہ افراد کو قیمت چکانی پرے گی۔ لیورپول میں بھی عبداللہ کیولیئم مسجد کے باہر 200 افراد نے نسلی تعصب کے خلاف مظاہرہ کیا، جبکہ مخالف مظاہرہ کرنے والے بھی موجود تھے۔ پولیس نے دونوں مظاہرین کو ایک دوسرے سے دور رکھا، اس سے قبل لندن کے علاوہ یارٹلی پول، مانچسٹر اور ایلڈر شاٹ میں بھی احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں۔ کمپین گروپ ’’ہوپ ناٹ بیٹ‘‘ کے مطابق ویک اینڈ پر ملک بھر میں 30 سے زائد مظاہرے ترتیب دیئے گئے ہیں۔ سائوتھ پورٹ کی مسجد کے چیئرمین ابراہیم حسین نے مسجد پر حملہ کے حوالے سے کہا کہ ’’نفرت غالب نہیں آسکتی‘‘ ، جمعہ کو مسجد کے باہر مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے لوگوں نے جمع ہو کر یہ پیغام دیا تھا کہ متحد ہیں اور نفرت کو مسترد کرتے ہیں۔ اسی شہر میں منگل کو ہونے والی ہنگامہ آرائی کے سبب 53 پولیس افسران کے علاوہ 3 پولیس ڈاگ بھی ہنگامہ آرائی اور حملوں کے سبب زخمی ہوئے تھے۔ جمعرات کو وزیراعظم سرکیئر اسٹارمر نے کہا تھا کہ ملک بھر کی پولیس فورسز فسادیوں سے مشترکہ طور پر نمٹیں گی۔ دریں اثناذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم سر کیر اسٹارمر نے سائوتھ پورٹ کادورہ کیا مقامی رہنماؤں سے ملاقات کے موقع پر ساؤتھ پورٹ تعزیتی خطاب بھی کیا۔ انہوں نے ہلاکتوں اور پرتشدد انتشار کے بعد مقامی کمیونٹی کے لیے حمایت کے ایک پیکج کی تصدیق بھی کی ۔یہ پیکج مقامی رہنماؤں اور ایجنسیوں کو لیس کرے گا تاکہ متاثرین کے لیے صحیح مدد کی جائے، اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سوگوار خاندانوں کی ضروریات ردعمل کے مرکز میں ہوں، اور کمیونٹی کو اکٹھا کرنے کے لیے طویل مدتی کوششوں کو آگے بڑھایا جائے۔ ساؤتھ پورٹ کے اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم نے میٹرو کے میئر اسٹیو روتھرم، چیف کانسٹیبل سرینا کینیڈی اور مقامی پولیسنگ، مذہبی گروپوں، صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں اور رضاکارانہ اور تعلیم کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ایک میٹنگ میں حصہ لیا۔ وزیر اعظم نے لیورپول کے ایلڈر ہی ہسپتال کا بھی دورہ کیا تاکہ عملے کی محنت اور پائیدار پیشہ ورانہ مہارت کا شکریہ ادا کیا جا سکے۔وزیر اعظم کیر اسٹارمر نے کہاکہ بحیثیت قوم، ہم ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جنہوں نے افسوسناک طور پر ساؤتھ پورٹ میں ہونے والے گھناؤنے حملے میں اپنے پیاروں کو کھو دیا، جس نے اس کمیونٹی کے تانے بانے کو چیر کر رکھ دیا اور ہم سب کو صدمے میں ڈال دیا۔ ان تمام طریقوں کے بارے میں سننا واقعی متاثر کن ہے جن میں لوگ اس طرح کی ہولناکیوں کا سامنا کرتے ہوئے سچی بہادری، لچک اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔