لندن (جنگ نیوز) برطانیہ بھر کے 100سے زائد امام صاحبان نے ملک میں حالیہ فسادات کے بارے میں مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔ شیخ ہیثم الحداد، ڈاکٹر مفتی عبدالرحمٰن، شیخ ظاہر محمود، امام زبیر یوسفزئی، امام فواد عبدو، استاد ڈاکٹر ام ابراہیم سمیت دیگر نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ، انتہا پسندی اور کثیر الثقافتی مبینہ ناکامی بنیادی طور پر انتہائی قدامت پسند سیاست دانوں کے سیاسی میدان میں اس بیانیے کو ہوا دینے کا سبب ہے کہ عام طور پر مہاجرین اور خاص طور پر مسلمان، مسئلہ ہیں۔ مسلمانوں کو نظر انداز کرنے اور حالیہ انتخابی مہم کے دوران امیگریشن سے متعلق پریشان کن ریمارکس بشمول بنگلہ دیشی کمیونٹیز کے بارے میں موجودہ وزیراعظم کے ریمارکس نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے، جس کے نتیجے میں حالیہ واقعات رونما ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر ان پالیسیوں کا تعلق غاصب اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی جاری نسل کشی سےہے۔ صیہونی انتہائی دائیں بازو کےشورش پھیلانے والے افراد، جیسے ٹومی رابنسن اور دیگر، جن کی امریکہ اور برطانیہ میں اسرائیل نواز نو قدامت پسندوں کی حمایت کی تاریخ ہے، فلسطین کے حامی مظاہروں کے خلاف ردعمل، اکثر پرتشدد اور بے ترتیبی کو متحرک کر رہے ہیں۔ اپنی توجہ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے یہ مشتعل افراد اپنے نیٹ ورکس میں اسلام مخالف، مہاجر مخالف پروپیگنڈے اور جھوٹ کو پھیلا رہے ہیں، جو اسرائیل کے جرائم اور یکے بعد دیگرے برطانوی حکومتوں کی وسیع تر ناکامیوں سے توجہ ہٹا رہے ہیں۔ ان سب نے انتہائی دائیں بازو کی حوصلہ افزائی کی اور تشدد کی ایک چونکا دینے والی سطح کو پھیلا دیا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے ہجوم نے مساجد پر اور مسلمانوں پر حملہ کیا ہے، سیاہ فاموں کو جمع کیا، ہوٹلوں میں آگ لگائی ہے اور یہاں تک کہ سٹیزن ایڈوائس بیورو کو جلا دیا ہے۔ مسلمان فطرتاً بہادر ہیں اور وہ اپنا اور اپنی مساجد اور اپنی املاک کا دفاع کریں گے۔ تاہم ہماری کمیونٹیز تمام افراد کی حفاظت کیلئے بھی فکر مند ہیں۔ اس مہذب رویہ کو بزدلی یا بے عملی نہ سمجھا جائے۔ آخر کار، ہم حکومت کی جانب سے اس بات کا تذکرہ کرنے میں ناکامی پر حیران ہیں کہ جو کچھ ہوا ہے، اسے اسلامو فوبک قرار دیا گیا ہے۔ یہ اس بات کا اعادہ کرتا ہے جیسا کہ فورڈ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ لیبر پارٹی میں لوگوں کی درجہ بندی کی گئی ہے اور یہ کہ سیاہ فام مخالف نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کے ساتھ یہودی دشمنی جیسا سلوک نہیں کیا جاتا۔ مشترکہ بیان میں مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں، اسرائیل کے ہولناک جرائم اور ان میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنا جاری رکھیں۔ متعلقہ حکام سے توقع کی گئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے مناسب اقدامات کریں گے کہ نشانہ بنائے گئے تمام لوگ اور عبادت گاہیں محفوظ رہیں۔ تاہم سیکورٹی کی عدم موجودگی میں عام لوگوں کو اپنی اور اپنی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لئے تمام قانونی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اخلاقی قیادت میں ناکامی کی روشنی میں باضمیر افراد سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ حکومت کو اپنے مطالبات پیش کرنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ انتہائی دائیں بازو کے خطرے کو سنجیدگی سے حل کریں، ای ڈی ایل کو ایک کالعدم تنظیم قرار دیا جائے۔ نفرت انگیز تقریر سے آن لائن نمٹنے کے لئے بنیادی قانون سازی کریں اور ان تمام لوگوں کا محاسبہ کریں جو غلط معلومات اور اسلامو فوبیا پھیلانے میں ملوث ہیں نسلی اور مذہبی اشتعال انگیزی سے متعلق قانون سازی کو مساوی بنائیں اور مذہبی منافرت پر اکسانے پر مقدمہ چلاتے وقت ارادے کی ضرورت کو دور کریں۔ لیوسن انکوائری کے دوسرے حصے سے شروع ہونے والے میڈیا ریگولیشن کو بہتر بنائیں پریس سے درخواست کریں کہ وہ نسل پرستوں کے مارچوں اور اجتماعات کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں مظاہرین کہنے کے بجائے مناسب زبان استعمال کریں۔ مسلم کمیونٹی کو یقین دلانے اور یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ حکومت اسلامو فوبیا سے نمٹنے میں سنجیدہ ہے، ایم سی بی، ایم ای این ڈی اور ایم اے بی جیسی نچلی سطح کی مسلم تنظیموں کے ساتھ کام کرنے کا عہد کریں۔