لندن ، کراچی ( شہزاد علی، خبر ایجنسیاں) برطانوی وزیراعظم سر کیئر سٹارمر نے ایرانی صدر مسعود پیزشکیان پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل پر حملہ کرنے سے باز رہیں۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان فون پر30منٹ تک بات چیت ہوئی۔ وزیراعظم خطے کی صورتحال پر گہری تشویش رکھتے ہیں اور انہوں نے تمام فریقوں سے کشیدگی کم کرنے اور مزید علاقائی تصادم سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا ۔وزیر اعظم نے کہا کہ صورت حال کے غلط اندازے لگانے کا سنگین خطرہ تھا اور اب پرسکون اور احتیاط سے غور کرنے کا وقت ہے۔ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ۔وزیر اعظم نے فوری جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کے لیے انسانی امداد میں اضافے کے لیے اپنے عزم پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان نتائج کو حاصل کرنے کے لیے سفارتی مذاکرات پر توجہ دی جانی چاہیے۔ وزیر اعظم نے ایران میں غیر ملکی زیر حراست افراد کے کیسز کو بھی اٹھایا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ ضروری ہے کہ انہیں ضروری طبی امداد مل جائے۔ رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ برطانیہ اور ایران کے درمیان تعمیری بات چیت دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ صرف اس صورت میں آگے بڑھاجا سکتا ہے جب ایران اپنے عدم استحکام کے اقدامات بشمول برطانیہ میں افراد کو دھمکیاں دینا اور روس کے یوکرین پر حملے میں مزید مدد بند کرے۔وزیراعظم نے ایرانی صدر سے رابطے سے قبل امریکی صدر اور یورپین اتحادی ممالک کے رہنماؤں سے بھی تبادلہ خیال کیا۔امریکا اور مغربی ملکوں نے ایران کو روکنے کےلیے سفارتی کوششیں تیز کردیں۔دوسری جانب ایران نے گزشتہ ماہ تہران میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکی کو مسترد کرنے کے مغربی مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔خبر رساں ادارے کے مطابق اسلامی جمہوریہ اور اس کے اتحادیوں نے 31 جولائی کو صدر مسعود پیزشکیان کی حلف برداری کے موقع پر اسماعیل ہنیہ کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے جبکہ اسرائیل نے اس حوالے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ایران نے حماس رہنما موت کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا، ان کا قتل بیروت میں اسرائیلی حملے میں لبنان میں طاقتور ایرانی حمایت یافتہ گروپ حزب اللہ کے ایک سینئر کمانڈر کی شہادت کے چند گھنٹے بعد ہوا تھا۔ادھر مغربی سفارت کاروں نے مشرق وسطیٰ میں ایک بڑے تنازع کو روکنے کے لیے کوششیں کی ہیں، جہاں غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کی وجہ سے پہلے ہی تناؤ زیادہ تھا۔پیر کو ایک بیان میں امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ کشیدگی کم کرے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور امریکا کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف فوجی حملے کی اپنی جاری دھمکیوں سے دستبردار ہو جائے اور اس طرح کے حملے کی صورت میں علاقائی سلامتی کے لیے سنگین نتائج پر تبادلہ خیال کیا۔وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا ہے کہ ایران اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے اس ہفتے اسرائیل پر حملہ کیے جانے کا خدشہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے بھی اسی تشویش کا اظہار کیا ہے۔اسی سلسلے میں امریکا نے اسرائیل کی حمایت میں ایک ایئر کرافٹ کیریئر اسٹرائیک گروپ اور ایک گائیڈڈ میزائل آبدوز کو خطے میں تعینات کیا ہے۔تاہم ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے کشیدگی میں کمی کے لیے مغربی مطالبے پر تنقید کردی۔انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے بیان میں ایران سے ڈھٹائی کے ساتھ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے جس نے اس کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی ہے، ان کے بیان میں صہیونی حکومت کے بین الاقوامی جرائم پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا ہے۔ اس طرح کی درخواست میں سیاسی منطق کا فقدان ہے۔ یہ بیان اسرائیل کے لیے عوامی اور عملی حمایت تشکیل دیتا ہے۔ادھر ایرانی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ایران سے تحمل کا مطالبہ کرنا سیاسی شعور کا فقدان اور بین الاقوامی قانونی اصولوں کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں ترکیہ میں امریکا کے سفیر جیف فلیک نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ترکیہ سمیت دیگر اتحادی ایران کو مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے پرآمادہ کریں، ترک رابطہ کار کوشش کررہے ہیں کہ حالات مزید کشیدہ نہ ہوں۔