مولانا محمد راشد شفیع
اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے،اللہ کی ان نعمتوں اور انعامات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس پاک پروردگار کا ہر وقت شکر بجا لائیں اور اپنی زندگی میں اس کی عادت کو اپنائیں، شکر کی حقیقت یہ ہے کہ احسان کرنے والے کے احسان و نعمت کا اعتراف اور اس نعمت کو اس کی فرماں برداری میں استعمال کرنا ہے، پوشیدہ اور ظاہری طورپر نافرمانیوں سے اجتناب کرنا اور فرماں برداری میں سخت کوشش و محنت کرنا اور ناشکری یہ ہے کہ اس کے انعام کو اس کی نافرمانی میں استعمال کرنا۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’سو تم مجھے یاد کیا کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا، میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو‘‘(سورۃالبقرہ، 152) دوسری جگہ ارشادباری ہے:’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لے آؤ، اور اللہ (ہر حق کا) قدرشناس ہے (ہر عمل کا) خوب جاننے والا ہے‘‘(سورۃالنساء، 147)ایک اورمقام پر ارشاد فرمایاگیا:’’اگر تم کفر کرو تو بےشک، اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے کفر (و ناشکری) پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکرگزاری کرو (تو) اسے تمہارے لئے پسند فرماتا ہے۔‘‘(سورۃالزمر، 7)
اللہ کی نعمتوں پر شکر کرنا جہاں اللہ کی رضا کا سبب ہے، وہیں نعمتوں میں اضافے کا بھی سبب بنتاہے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ ناشکری کرنے کے سبب اللہ رب العزت نعمت کو سلب فرما لیتا ہے اور شکر کی وجہ سے نعمت کو بڑھا بھی دیتا ہے، اس لئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ نعمتوں میں برکت ہو اور نعمتیں سلب نہ ہو تو ہمیں دل اور زبان اور ظاہری اعضاء سے اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے، یعنی دل میں اس نعمت کی قدر ہو، زبان سے اس نعمت کا اقرار ہواور نعمت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو اور ظاہری اعضاء سے منعم کی نعمتوں کے ملنے کے سبب سے ایسے افعال صادر ہوں جو منعم کی بڑائی کو ظاہر کریں۔
احادیث مبارکہ میں جابجا شکر کی فضیلت کو بیان کیاگیاہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ رات کے وقت اس قدر قیام فرمایا کرتے کہ دونوں قدم مبارک پر ورم آجاتا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عرض گزار ہوئیں : یا رسول اللہﷺ! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلےاور پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا : کیا مجھے یہ پسند نہیں کہ میں شکر گزار بندہ بنوں؟(أخرجہ البخاری فی کتاب التفسیر)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس بات سے(بھی) راضی ہوتا ہے کہ بندہ کھانا کھا کر اس کا شکر ادا کرے یا پانی پی کر اس کا شکر ادا کرے۔(أخرجہ مسلم فی کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار)
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن کی(اس) شان پر خوشی کرنی چاہیے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہے اور یہ مقام اس کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں، اگر وہ نعمتوں کے ملنے پر شکر کرے تو اسے اجر ملتا ہے اور اگر وہ مصیبت آنے پر صبر کرے تب بھی اسے اجر ملتا ہے۔(أخرجہ مسلم فی کتاب الزھد والرقائق)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کھانے پر شکر کرنے والا درجہ میں صبر کرنے والے روزہ دار کے برابر ہے۔(أخرجہ الترمذی فی السنن، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع)
نبی اکرم ﷺ سے ہر موقع کی جو دعائیں منقول ہیں، مثلاً کھانا کھانے کی، نئے کپڑے پہننے کی، سونے کی، سو کر اٹھنے کی، نئے پھل کھانے کی، مسجد میں جانے، اور مسجد سے باہر آنے کی ،گھر سے نکلنے کی، وغیرہ ان سب کا مقصد بھی اللہ کی حمد اور شکر اداکرناہے۔
خلاصہ تحریر یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر ہر وقت شکر گزار رہیں، اس کی نعمتوں کی قدر کریں اور اپنے اندریہ عادت ڈالیں کہ دنیاوی اعتبار سے اپنے سے کمتر پر نظر ہو اور دینی اعتبار سے اپنے سے اوپر والے پر نظر ہو تو اس سے جہاں ہمیں نیک اعمال میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوگا ،وہیں شکرگزاری کی عادت بھی ہمارے اندر پیدا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق بخشے۔(آمین)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مجھے میرے پروردگار نے نو باتوں کا حکم دیا ہے:
(۱) ظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرنا،
(۲) انصاف کی بات کہنا غصے اور رضا مندی میں(ہر حال میں)،
(۳) افلاس اور دولت مندی دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرنا،
(۴) جو مجھ سے قطع تعلق کرے، میں اس سے قرابت کو قائم رکھوں،
(۵) جو مجھے محروم رکھے، میں اسے دوں،
(۶) جو شخص مجھ پر ظلم کرے میں اسے معاف کر دوں،
(۷) میری خاموشی غور و فکر پر مبنی ہو، میرا بولنا ذکر الٰہی ہو،
(۸) میرا دیکھنا عبرت کے لیے ہو،
(۹) اور میں نیکی کا حکم دوں۔‘‘ (مشکوٰۃ ،باب البکاء والخوف)