• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس نےچلتے چلتے رک کر ہاتھ میں پکڑی سامان کی مختصر فہرست پر نظر ڈالی، ابھی چند چیزیں باقی تھیں ۔ وہ حساب لگا رہی تھی کہ اب تک کتنا خرچہ ہوگیا اور پرس میں کتنی رقم باقی ہے کہ اچانک ہی وہ ایک بڑی شیشوں سے سجی دکان کے آگے ٹھٹک کر رک گئی۔ ایک طرف رنگ برنگی جگمگ کرتی سینڈلز سجی تھیں تو دوسری طرف بیش قیمت خواتین کے پرس، ہینڈ بیگ اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی شیشے کے پار سے ان کو دیکھنے لگی۔ 

چند منٹوں کے بعد وہ دروازہ دھکیلتی اندر داخل ہوگئی۔ خنک ماحول نے مزاج پر اچھا اثر ڈالا، اب وہ ان پر لگے قیمتوں کے ٹیگ دیکھتی گئی ۔کتنی دیر ایسے ہی گزر گئی۔ قیمتیں اس کی پہنچ سے باہر تھیں ۔لیکن اس کے باوجود دل کی خواہش کو وہ دبا نہیں پا رہی تھی ، کافی تگ و دو کے بعد اپنی رینج دیکھتے ہوئے اس نے ایک جوتی اور اس کے ساتھ میچنگ پرس خرید ہی لیا تھا۔ اور دکان سے باہر آگئی۔ 

دل ہی دل میں بقیہ ضروری اشیاء اور رقم کا موازنہ کیا ، تاسف کی ایک لہر نے اس کو کمزور کردیا تھا لیکن اگلے ہی لمحے اس کیفیت سے اپنے آپ کو آزاد کیا۔ ’’کیا ہر وقت ترستے ہی رہیں ؟ ایک سے بڑھ کر ایک چیز ہے بازار میں، میں نے اپنے لیے بس یہی تو خریدا ہے، اور وہ بھی کتنے مہینوں بعد ، اب کیا کریں مہنگائی ہی اتنی ہے۔ ادھر کچھ زیادہ خریدو ، ادھر بجٹ آؤٹ ۔‘‘وہ اپنے آپ سے مخاطب تھی اور اپنے دل و دماغ کو تسلی دی رہے تھی ۔ اب پرس میں اتنی رقم نہیں تھی کہ کچھ اور خریدا جاتا، لہٰذا اس نے واپسی کا ارادہ کیا اور رکشے کے لیے نظر دوڑانی شروع کر دی۔

آج وہ دور ہے جب چند دن قبل کی ہوئی خریداری بھی پرانی یا دوسرے لفظوں میں آؤٹ آف فیشن لگنے لگتی ہے ۔ تیزی سے بدلتی دنیا اور اس کے فیشنوں نے ہر ایک کی مت مار دی ہے۔ ایک مہینے پہلے جو فیشن تھا ، آج بدل چکا ہے اور اگلے مہینے وہ کچھ اور ہی شکل اختیار کر چکا ہوگا۔ بازار وہ چند جگہوں میں سے ایک ہے جہاں خواتین ہر وقت اور ہر طرح کے حالات میں جانے کے لیے تیار رہتی ہیں۔

یہ ان کے پسندیدہ ترین مقام میں سے ایک ہے۔ پرس میں مطلوبہ رقم یا کارڈ ہواور سامنے دنیا جہاں کے سامان سے لدی پھندی دکانیں اور کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی ساتھ نہ ہو تو خریداری اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک بٹوے میں جان ہے ،اس کے باوجود اکثریت کے دل میں بہت سی تمنائیں رہ جاتی ہیں کہ ہم یہ نہ خرید سکے یا وہ شے ہماری پہنچ میں نہیں تھی۔ 

یہ گورکھ دھندا زندگی بھر سانسوں کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ شاید ہر خاتون اس بات سے متفق نہ ہو۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ وقت بدلا، دور بدلا، قدریں بدلیں تو خواہشات و شوق کا عالم بھی بدل گیا ۔ اب دنیا بھر کی چمکتی اشیاء آپ کے چند قدم کی دوری پر ہیں۔ 

آپ کو جہاں سے جو کچھ بھی چاہیے گھر بیٹھے حاضر ہوجاتا ہے ۔ گویا ہاتھ میں الہ دین کا چراغ ہو اور اسے رگڑ دیجیے، بس !پھر دیکھیے کمال !۔ ویسے حقیقت میں ہم یہاں الہ دین کے چراغ کے ساتھ اپنے گھر کے مردوں کو( ان کی خون پسینے کی کمائی کو) رگڑ رہے ہوتے ہیں۔ اپنی جا اور بے جا آرزوؤں کی تکمیل کے لیے ۔ ہوسکتا ہے کہ قارئین اس بات سے اختلاف کریں لیکن ہم نے اپنی خواہشات کے اڑن کھٹولے کو بغیر بریک کے اُڑان دے دی ،جس کے بعد اس کو قابو میں رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ 

درجنوں اور اس سے بھی بڑھ کر گھر میں ضرورت اور بلا ضرورت کی اشیاء کا ایک انبار ہم جمع کیے جارہے ہیں، اس کے باوجود ہماری نہ ختم ہونے والی آرزوئیں، حسرتوں میں بدل رہی ہیں۔ ہم دکان میں رکھی ہر شے گھر میں سجانے کے لیے بے تاب ہیں اور اس پر سمجھوتا کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اور۔۔۔۔۔ اور کی خواہش ہمیں ہلکان کیے دے رہی ہے ۔ لیکن ہم اپنے دل ناداں کو سمجھا نہیں پاتے۔ پھر حاصل ، لاحاصل کے شمار میں پھنس کر دل مسوستے ہیں، یہی حسرتیں پھر دل کا روگ بن جاتی ہیں اور ہم محفل میں بیٹھ کر بڑی درد مندی سے اپنی ان ناتمام خواہشات کا نوحہ پڑھتے ہیں۔

افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ جو حاصل ہے، ان لاتعداد چیزوں کا کہیں ذکر، کوئی حوالہ ہماری گفتگو میں نہیں ہوتا۔  فہرست کی بیس اشیاء میں سے اٹھارہ خریدنے کے بعد ، جو دو ہماری دسترس سے باہر تھیں ، اسی کا رونا اور اسی کی حسرت ہمارا امتحان بن کر دل و جاں پر مسلط ہو جاتی ہے۔ لیکن ہماری وہ خواہشات جو بند ہو کر الماریوں کی زینت بن چکی ہوتی ہیں ان کا ذکر بھولے سے بھی ہماری زبانوں پر نہیں آتا ، کیوں ہم حاصل شدہ نعمتوں کی ناشکری میں وقت گنواتے اور لاحاصل کی بحث پر اپنی قوتیں صرف کرتے ہیں۔

اگر دی گئی جہاں بھر کی نعمتوں کو شمار کرنے بیٹھیں تو زندگی ختم ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ انمول نعمتوں کی شکر گزاری نہ ہو سکے۔اچھا لباس، خوراک ، مکان ،کے علاوہ اچھی سواری ، اچھا رہن سہن، اچھے دوست، اچھی ملازمت، اچھے پڑوسی، اچھا اخلاق، نیک اولاد، عزت، دولت، آرام و سکون، پر سکون نیند یہ تو سمندر میں قطرے کے برابر کی چند نعمتیں ہیں لیکن اس کے ساتھ جو جسمانی نعمتیں بنا طلب ملیں ، آنکھ ، ناک، کان کی نعمت، کھانے پینے کی اور اس کے ذائقے سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت پھر اس کو ہضم کرنے کی نعمت اور کچھ دیر بعد دوبارہ بھوک کا احساس یہ بھی وہ بیش بہا عطائیں ہیں، جس کو شاید ہم کسی گنتی میں ہی نہیں لاتے۔ 

وائے افسوس! ان بخششوں اور عطائے رب کو سنبھالنے کے بجائے دستیاب نہ ہونے والی اشیاء پر ہاتھ ملنا کہاں کی دانائی ہے؟ ۔ لہٰذا جو میسر ہو اس کا شکر بجا لائیں اور جو نہیں ملا اس کی خواہش کو دل سے پرے کردیں۔ 

یہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ زیادہ سے زیادہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ کی دوڑ میں سوائے تھکن اور مایوسی کے کچھ نہیں ملتا۔ دوسرے کے پاس موجود چیزوں سے حسد اور محرومی آپ کی جسمانی و ذہنی، روحانی و نفسیاتی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ جو آپ کو اندر ہی اندر سلگا دیتی ہے۔