عبدالرشید طلحہ
اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک اہم ترین نعمت پُرسکون نیند بھی ہے۔’’نیند‘‘ قدرت کا وہ عظیم تحفہ ہے، جو خالق کی عظمت و ربوبیت کا گواہ،اور اس کی بے مثال صنعت و کاریگری کا شاہ کار ہے۔ یہ ایک پیدائشی چیز ہے جو غیرشعوری طورپر انسان کی فطرت اور ساخت میں داخل ہے۔
اس کا انسانی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں، بلکہ خالق و مالک نے ایک مضبوط ومستحکم نظام کے مطابق، جان داروں کی راحت رسانی کے لیے اسے بنایا ہے۔انسان کو بس اتنا معلوم ہے کہ جب وہ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد تھکا ہارا بستر پر پہنچتا ہے تو بے ساختہ نیند اسے آدبوچتی ہے۔
جدید سائنسی تحقیق کے مطابق جب انسان گہری نیند سوجاتا ہے، تب دماغ کا کارخانہ اپنے اندر دن بھر کے کام کاج کے دوران صحت کو نقصان پہنچانے والے جمع شدہ زہریلے فضلے کونکال باہر کرتا ہے اور پورے دماغ کی مرمت کرکے اُسے نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔ جس سے دماغ اور اس کی وساطت سے سارا جسم ازسرنو مضبوط ومتحرک ہوجاتا ہے۔ چنانچہ نیند کا آنا، نیند سے تھکن کا دُور ہونا اور پھر تھکن دُور ہونے پر تازہ دم ہو کر اَز خود ہی بیدار ہوجانا، یہ سب قوتیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں، جو سراسر اس کی حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں۔
نیند میں قدرت کی جانب سے پوشیدہ حکمت: نیند کی حالت کس طرح طاری ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک انسان کس طرح چست و توانا ہوجاتا ہے؟اس حقیقت کو صرف اللہ ہی جانتا ہے، اس پورے نظام میں انسانی ارادے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں نیند کو پریشانی اور دُکھ رفع کرنے اور سکون کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا: ’’تمہاری نیند کو تھکن دُور کرنے کا ذریعہ ہم نے بنایا‘‘۔(سورۃالنبا)
انسان کو دُنیا میں کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس حکمت کے ساتھ اس کی فطرت میں نیند کا ایک ایسا داعیہ رکھ دیا ہے، جو ہرچند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹے سونے پر مجبور کردیتا ہے۔(تفہیم القرآن، ج۶، ص۲۲۶)
اللہ تعالیٰ انسان کا محض خالق ہی نہیں ، بلکہ اپنی مخلوق پر غایت درجے رحیم و شفیق اور اس کی ضروریات اور مصلحتوں کے لیے خود اُس سے بڑھ کر فکر کرنے والا ہے۔ انسان دُنیا میں مسلسل محنت نہیں کرسکتا، بلکہ چند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹوں کے لیے آرام درکار ہوتا ہے، تاکہ پھر چند گھنٹے محنت کرنے کے لیے اسے قوت بہم پہنچ جائے۔
اس غرض کے لیے خالقِ کائنات نے انسان کے اندر صرف تھکان کا احساس، اور صرف آرام کی خواہش پیدا کردینے ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس نے ’نیند‘ کا ایک ایسا زبردست داعیہ اس کے وجود میں رکھ دیا، جو اس کے ارادے کے بغیر، حتیٰ کہ اس کی مزاحمت کے باوجود، خود بخود ہرچند گھنٹوں کی بیداری و محنت کے بعد اسے آدبوچتا ہے۔ چند گھنٹے آرام لینے پر اسے مجبور کردیتا ہے، اور ضرورت پوری ہوجانے کے بعد خود بخود اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس نیند کی ماہیت و کیفیت اور اس کے حقیقی اسباب کو آج تک انسان نہیں سمجھ سکا۔
یہ قطعاً ایک پیدائشی چیز ہے، جو آدمی کی فطرت اور اس کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے۔ اس کا ٹھیک انسان کی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں، بلکہ کسی حکیم نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق یہ تدبیر وضع کی ہے۔
اس میں ایک بڑی حکمت و مصلحت اور مقصدیت صاف طور پر کارفرما نظر آتی ہے۔ مزیدبرآں یہی نیند اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے یہ مجبور کن داعیہ انسان کے اندر رکھا ہے، وہ انسان کے حق میں خود اس سے بڑھ کر خیرخواہ ہے، ورنہ انسان بالارادہ نیند کی مزاحمت کرکے اور زبردستی جاگ جاگ کر اور مسلسل کام کرکرکے اپنی قوتِ کار کو ہی نہیں، قوتِ حیات تک کو ختم کرڈالتا۔(تفہیم القرآن، ج۳،ص ۷۴۷-۷۴۸)
مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ لکھتے ہیں: یہاں حق تعالیٰ نے انسان کی راحت کے سب سامانوں میں سے خاص طور پر نیند کا ذکر فرمایا ہے۔ غور کیجیے تو یہ ایک عظیم الشان نعمت ہے۔ اس نعمت کو حق تعالیٰ نے پوری مخلوق کے لیے ایسا عام فرما دیا ہے کہ امیر، غریب، عالم، جاہل، بادشاہ اور مزدور سب کو یہ دولت بہ یک وقت عطا ہوتی ہے،بلکہ دنیا کے حالات کا تجزیہ کریں تو غریبوں اور محنت کشوں کو یہ نعمت جیسی حاصل ہوتی ہے، وہ مال داروں اور دنیا کے بڑوں کو نصیب نہیں ہوتی۔
نیند کی نعمت گدوں، تکیوں یا کوٹھی بنگلوں کی فضا کے تابع نہیں ہے، یہ تو حق تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جو براہ راست اس کی طرف سے ملتی ہے۔ بعض اوقات مفلس کو بغیر کسی بستر تکیے کے، کھلی زمین پر یہ نعمت فراوانی سے دے دی جاتی ہے اور بعض اوقات سازوسامان والوں کو نہیں دی جاتی، انہیں خواب آ ور گولیاں کھا کر نیند میسر آتی ہے اور بعض اوقات وہ گولیاں بھی کام نہیں کرتیں۔(ملخص از معارف القرآن)
نیند کی جو حقیقت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے،اس سے زیادہ نہ کسی نے بیان کی ہے اور نہ کوئی بیان کرسکتا ہے۔ نیند کو موت کی بہن قرار دیتے ہوئے حق تعالیٰ شانہٗ نے ارشاد فرمایا: اللہ تمام روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے، اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی، ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن کے بارے میں اس نے موت کا فیصلہ کرلیا۔ انھیں اپنے پاس روک لیتا ہے، اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ یقینا ًاس بات میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو غور وفکر سے کام لیتے ہیں۔(سورۃالزمر)
مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں: قبضِ روح کے معنی اس کا تعلق بدنِ انسانی سے قطع کردینے کے ہیں، کبھی یہ ظاہراً و باطناً بالکل منقطع کردیا جاتا ہے۔ اسی کا نام موت ہے اور کبھی صرف ظاہراً منقطع کیا جاتا ہے باطناً باقی رہتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ صرف حِس اور حرکت ِارادیہ جو ظاہری علامتِ زندگی ہے وہ منقطع کردی جاتی ہے اور باطناً روح کا جسم کے ساتھ تعلق باقی رہتا ہے، جس سے وہ سانس لیتا اور زندہ رہتا ہے۔
جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ روحِ انسانی کو عالمِ مثال کے مطالعے کی طرف متوجہ کرکے اس عالم سے غافل اور معطل کردیا جاتا ہے، تاکہ انسان مکمل آرام پا سکے۔ اور کبھی یہ باطنی تعلق بھی منقطع کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جسم کی حیات بالکلیہ ختم ہوجاتی ہے۔(تفسیر مظہری) (جاری ہے)