مفتی محمد شعیب
انسان کی رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے عقل عطا فرمائی اوریہ عقل‘ غور و فکر، سوچ اور جستجو سے انسان کو رہنمائی کے لئے نت نئے طریقے سکھاتی ہےاور بار بار اللہ تعالیٰ انسان کو غور و فکر کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا کی تمام چیزیں چاہے بحری ہوں یا برّی، جماداتی ہوں یا نباتاتی ، حیوانی ہوں یا جنّاتی، غرض ہر چیز پر غور کیا جائے تو جواب آتا ہے کہ یہ سب چیزیں حضرت انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔
مختلف کیفیتوں اور حالتوں سے بدلتی ہوئی یہ چیزیں بالواسطہ یا بلا واسطہ انسان ہی کے لئے مسخر کی گئی ہیں اور یہ کار خانۂ قدرت ازل سے چلا آرہا ہے اور ابد تک انسان کو نفع ہی دیتا رہے گا۔ غرض اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو انسان کے لئے قربان کردیاہے، تو اب سوال یہ ہے کہ کیا انسان بھی اپنے پیدا کرنے والے رب کے لئے کوئی قربانی دے سکتا ہے؟ اسی کو قرآن مجید بڑے پیارے انداز میں مخاطب ہو کر انسان سے یہ سوال کرتا ہے ، ترجمہ: ’’ اے انسان! تجھے کس چیز نے دھوکے میں ڈالا؟ اس رب کریم کے بارے میں جس نے تمہیں پیدا کیا اور ایک اچھی شکل و صورت میں ڈھال دیا ‘‘۔ (سورۃالانفطار)
انسان کو چاہئے کہ وہ غور و فکر کرے کہ میرا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیسا تعلق ہے ؟جو رب مجھے ہر وقت رزق عطا کرتا ہے، جو میری ضروریات کا کفیل ہے، جو زمین و آسمان، دن رات ، سورج و چاند کے نظام کو میرے لئے مسخر کرتا ہے، اس رب کے ساتھ میں نے کتنی وفاداری دکھا ئی ہے؟ ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہئے، اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے، دل کی حالت کو سامنے رکھنا چاہئے۔
دلی کیفیات کے جانچنے کو صوفیا کی اصطلاح میں مراقبہ کہتے ہیں اور یہی مراقبہ انسان کو توبہ سکھا تا ہے۔ توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں بار بار توبہ کی ترغیب دی گئی ہے اور فرمایا گیا: ترجمہ: ’’اے ایمان والو! آجاؤتوبہ کی طرف اور سچے صاف دل سے توبہ کرلو، امید ہے تمہارا رب تمہارے گناہوں کو مٹا کر تمہیں بہتی نہروں والی جنّت میں داخل کرے گا‘‘ ۔(سورۃ التحریم:۸) اس رحیم رب سے مانگوتو سہی، پھر دیکھووہ کیسے عطا کرتا ہے! یہ وہ بادشاہ ہے جو مانگنے والے سے خوش اور نہ مانگنے والے سے ناراض ہوتا ہے۔
تاریخ میں ذرا اس واقعے کو بھی پڑھئے کہ جب حضرت حسن بصری ؒ کے زمانے کا ایک نوجوان اپنے باپ کی چھوڑی ہوئی بہت بڑی دولت میں نازاں ہو کر شراب و کباب کی مستی میں مبتلا اپنے وقت کا بہت بڑا زانی اور چور تھا۔ اس کی عیاشی، مستی، ظلم و بربریت ،شہوت پرستی ،چوری اورڈاکے کے قصّے زباں زدعام تھے۔
مگر اس کی ماں ایک بہت ہی نیک اللہ والی خاتون تھیں، وہ ہر وقت اپنے اس بیٹے کو سمجھاتیں کہ بیٹا! ان گناہوں کی لت میں مت پڑو، بیٹا! زنا چھوڑ دو، بیٹا! شراب نہ پیو ،بیٹا! تو بہ کر لو، نیکی کی طرف آجاؤاور میرے ساتھ چلو، ہم حضرت حسن بصری ؒ کے پاس جا کر تمہاری توبہ کروالیں۔ وہ نیک بوڑھی امّاں بہت منتیں سماجتیں کرتی رہیں، مگر وہ بیٹا باز نہ آیا۔
زمانہ گزرتا رہا، آخر کار بیٹا ایک انوکھے مرض میں مبتلا ہو گیا اور موت و حیات کی کشمکش میں آگیا، جب اُسے اپنی موت سامنے نظر آنے لگی اور جانے کا وقت یقینی طور پر قریب آگیا، اب اُسے احساس ہوا اور ندامت ہوئی، اب چارپائی پر لیٹا ہوا ہے، چل پھر نہیں سکتا، زندگی کی آخری ساعتوں میں پکارتا ہے: اے ماں! تو ساری زندگی حسن بصری ؒ کا نام لیتی تھی، میں اب چل نہیں سکتا، خدارا !آپ چلی جائیں اور حضرت حسن بصری ؒکو ادب کے ساتھ عرض کردیں کہ میں اب چل نہیں سکتا، میں آخری وقت میں ہوں، تھوڑا سا وقت نکال کر ہمارے گھر تشریف لے آئیں اور میری توبہ کروادیں، مجھے تو توبہ کا طریقہ بھی نہیں آتا۔یہ بوڑھی ماں کانپتے جسم کے ساتھ حضرت حسن بصریؒ کے دربار میں پہنچی اور یہ درخواست پیش کی۔
حضرت حسن بصری ؒ نہایت شفیق ، محبت اور درد دل رکھنے والے بزرگ تھے، مگر اس وقت انہوں نے اپنا درس پڑھانے کے عذر کی وجہ سے اس نوجوان کے پاس آنے سے انکار کر دیا۔ ماں روتی دھوتی واپس آگئی اور کہا: بیٹے! تو بہت بد نصیب اور بد بخت ہے، حسن بصریؒ جیسا بزرگ اور ولی بھی اب تیرے پاس آنے کو تیار نہیں۔ نوجوان یہ سن کر بے انتہا رو پڑا ور پھر اپنی بوڑھی ماں کو مخاطب ہو کر کہا کہ قبل اس کے کہ میری روح قبض ہو جائے، میری دو وصیتیں سن لو اور قسم دیتا ہوں کہ اس وصیت پر عمل کرنا: پہلی وصیت: یہ ہے کہ جب میری روح پرواز کر جائے تو اپنے دوپٹے سے میری گردن پر پھندا لگا دینا اور پھر اس پھندے سے میری لاش کو محلے کے گلی کوچوں میں گھسیٹنا، تاکہ میرے ساتھ چوری، زنا اور ڈاکہ میں شریک دوستوں کو میرے انجام کاپتا چل جائے اور میری ذلت کا یہ منظر ان کے سامنے آجائے، شاید میری لاش کے ساتھ ایسے عبرت ناک سلوک کو دیکھ کر کسی کو توبہ کی توفیق ہو جائے۔ دوسری وصیت: یہ ہے کہ میرے انتقال کے بعد میری قبر مسلمانوں کے قبرستان میں نہ بنانا، میں اللہ کی نظر میں بہت بد ترین آدمی ہوں اور اللہ کا غضب مجھ پر شدید ہو گا۔
میں چاہتا ہوںکہ اس غضب کی وجہ سے میرے اوپر اترنے والا عذاب میرے اوپر ہی رہے، کہیں ایسا نہ ہومیری وجہ سے میرے پڑوسی قبر والوں کوبھی تکلیف پہنچے۔ ان دو وصیتوں کے بعد اس نوجوان نے دھاڑیں مارتے ہوئے نظریں آسمان کی طرف کیں اور ہاتھ اُٹھائے معافیاں مانگتا رہا اور اس کی آنکھوں سے آنسونکل کر اُس کے گال پر ٹپک رہے تھے ،ابھی ہاتھ اُٹھائے ہوئے ہی تھا کہ اس کی روح پرواز کر گئی۔
یوں یہ نوجوان اس دنیا سے کوچ کر گیا۔ اس کی موت کے بعد اس کی ماں دوبارہ حضرت حسن بصری ؒ کے دربار میں گئی اور عرض کیا کہ: حضرت! جس بیٹے کے لئے میں آپ کے پاس آئی تھی، اب وہ جا چکا ہے، اس کا انتقال ہو گیا ہے، اب تو آپ آجا ئیے، میرے بیٹے کا جنازہ پڑھا دیجئے، شاید آپ کے جنازہ پڑھانے کی وجہ سے اللہ کو رحم آجائے اور میرے اس بد نصیب بیٹے کی بخشش ہو جائے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اُس وقت حضرت حسن بصری ؒ کی شخصیت پر جلالی کیفیت طاری تھی۔
یہ بوڑھی ماں حضرت حسن بصری ؒ کی منتیں کررہی تھی، مگر پھر بھی حضرت حسن بصری ؒ آنے کو تیار نہیں، چنانچہ بوڑھی امّاں دوبارہ واپس آگئی اور بیٹے کی لاش پر کفن ڈالے رو رہی تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھلتا ہے، حضرت حسن بصری ؒ گھر میں داخل ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں: کہاں ہے تمہارا بیٹا ؟ کہاں ہے وہ ولی؟ کہاں ہے وہ بزرگ؟ اور پھر فرمایا کہ جب تم ابھی ملنے آئی تھیں، میں نے آنے سے انکار کیا، اسی وقت کچھ دیر کے لئے لیٹا اور خواب دیکھا کہ اللہ کی طرف سے پکار آرہی ہے:’’اے حسن! تم میرے کیسے دوست ہو؟ تم نے میرے ولی کا جنازہ پڑھانے سے انکار کیا ہے؟ وہ تو میرا دوست ہے، سُنو اے حسن! اسے میں نے بخش دیا، اس کی مغفرت ہوچکی ہے۔‘‘ حضرت حسن بصری ؒ آگے بڑھے، خود اپنے ہاتھ سے غسل دیا، اپنے ہاتھ سے کفن دیا اور اپنے ہاتھوں سے تدفین کی۔
تاریخ میں فضیل بن عیاضؒ کے واقعے کو بھی پڑھئے! یہ اپنے وقت کے بہت بڑے ڈاکو تھے ۔اپنی عادت کے مطابق ایک دن کسی گھر ڈاکہ مارنے پہنچے، رات کا آخری حصہ تھا، گھر میں ایک اللہ کا بندہ قرآن پاک کی تلاوت کررہا تھا:ـ ترجمہ:’’ کیا ایمان والوں کے لئے ابھی بھی وہ وقت نہیں آپہنچا کہ ان کے دل اللہ کے خوف سے ڈر جائیں اور جو حق نازل ہوا ہے اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیں؟‘‘۔(سورۃالحدید:۱۶) کان میں اس آیت کا پڑنا ہی تھا، بس اسی لمحے دل کی کایا پلٹی، ڈاکہ چھوڑا اور زور دار آواز سے کہا: ’’بلیٰ یا رب ! قد آن‘‘ترجمہ:’’ہاں اے میرے رب! اب وہ وقت آہی گیا ہے‘‘۔
اُسی وقت سچی توبہ کی اور پھر یہی فضیلؒ آہستہ آہستہ تقویٰ میں آگے بڑھتے رہے اور بہت بڑے ولی بن کر دنیا کے سامنے آئے۔ آج اولیائےکرام کی فہرست میں ایک بہت بڑا مقام اور مرتبہ حضرت فضیل بن عیاضؒ کا ہے۔ خدا ان کی قبر پر لازوال رحمتیں نازل فرمائے۔ تاریخ میں ایسے توبہ کرنے والوں کے قصّے کثرت کے ساتھ مذکور ہیں۔ نبی اکرم ﷺ اکثر نوجوانوں کے گروہوں کو مخاطب ہو کر انہیں توبہ کی ہدایت فرمایا کرتے تھے۔
وہ حدیث مشہور ہے : ترجمہ:’’ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں‘‘۔ (سنن ابن ماجہ) اورجوانی کی توبہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ علامہ رومی ؒ فرماتے ہیں کہ توبہ جوانی کی عمر میں کر لیجئے، بڑھاپے کی عمر میں توبہ کرنا کمال نہیں ہے، علامہ رومیؒ اپنے شعر میں عجیب تشبیہ پیش کرتے ہیں: ’’بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی متقی اور پرہیز گار بن جاتا ہے، جوانی میں توبہ کرو، کیونکہ جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے‘‘۔
انسان سے گناہ ممکن ہے، گناہ کے داعیے بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان گناہوں کے سامنے ڈٹ جانے اور اپنے رب سے معافی مانگنے والے کوحدیث میں بہترین مؤمن قرار دیا گیا ہے۔ آئیے! عزم کیجئے! اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں گے، اپنے رب سے وفا داری کرتے ہوئے اورسچے دل سے توبہ کرکے اپنے ایمان کو مضبوط اور کامل بنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔