اسلام آباد (عمر چیمہ) عمران خان کے ماضی کے ریکارڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے سیاست دانوں کو جامعہ کا چانسلر بننے سے روکنے کی خواہش کو دیکھیں تو عمران خان کے پاس اپنی مادر علمی (آکسفورڈ) کا چانسلر بننے کے امکانات بہت کم ہیں۔
عوام کی یاد دہانی کیلئے یہ بتانا ضروری ہے کہ عمران خان بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے چانسلر بھی رہ چکے ہیں لیکن عہدے کی معیاد مکمل ہونے سے قبل ہی وہ یہ عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ فیصلہ طلباء کے دباؤ میں کیا گیا تھا جنہوں نے چانسلر کی گریجویشن کی تقریبات سے مستقل غیر حاضری پر احتجاج کیا تھا۔
عمران خان نے چانسلر کا عہدہ 2005 میں سنبھالا تھا لیکن 2010 کے بعد سے وہ یونیورسٹی نہیں گئے۔ بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹی کو پروموٹ کرنے کے علاوہ ان کی ذمہ داریوں میں یہ کام بھی شامل تھا کہ سال میں دو مرتبہ طلباء کو ڈگری سے نوازیں۔ یہ تقریب پانچ دن پر مشتمل ہوتی ہے۔
یونیورسٹی کے طلباء کو فروری 2014 میں عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹ دینا تھا جس میں عمران خان سے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا جانا تھا لیکن عمران خان نے اس سے پہلے ہی عہدہ چھوڑ دیا۔ انہوں نے غیر حاضری کیلئے بڑھتی سیاسی سرگرمیوں اور ڈونیشن جمع کرنے سے جڑی مصروفیات کا حوالہ دیا۔
اب حالات دیکھیں تو وہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ مصروف ہیں، ایک تو وہ جیل میں ہیں دوسرا یہ کہ سیاسی مہم چلانے کی وجہ سے وہ آکسفورڈ کے چانسلر کے عہدے کیلئے موزوں نہیں رہیں گے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدے کیلئے وضع کردہ ذمہ داریوں میں لکھا ہے کہ چانسلر کو ہمہ وقت پورے سال کے دوران قابل رسائی رہنا ہوگا۔
عمران خان کے معاملے میں دیکھیں تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ جیل سے باہر آنے والے ہیں یا نہیں، مصروفیت کی بات تو الگ رہی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا عہدہ خالصتاً رسمی نوعیت کا ہے اور کئی اہم تقاریب کی صدارت کا کام چانسلر ہی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ چانسلر کو ملکی و غیر ملکی تقریبات میں یونیورسٹی کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے علاوہ مشاورتی اور فنڈ ریزنگ کے کام بھی کرنا ہوتے ہیں۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عمران خان ایک آزاد شخص ہیں تو ایسی صورت میں بھی وہ یونیورسٹی کیلئے ضروری کام نہیں کر پائیں گے۔ غور کریں تو بحیثیت سیاست دان، یونیورسٹی چانسلر اور فلاحی کام کاج میں مصروف شخصیت ان کے کام کاج میں تضادات پیدا ہوں گے۔
اس مرتبہ یونیورسٹی نے اپنی پالیسی تبدیل کر دی ہے جس سے لوگ یہ اندازے ہی لگا رہے ہیں کہ کون الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیا جائے گا۔ اس سے قبل، ایک سابق طالب (المنائی) ووٹرز کے 50 ممبروں (یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ عملے کے خدمات انجام دینے اور ریٹائرڈ ممبروں کی خدمت اور ریٹائرڈ ممبروں) سے نامزدگی حاصل کرکے امیدوار بن سکتا تھا۔
لیکن اب سے، جب بھی کوئی امیدوار الیکشن لڑنے کیلئے درخواست دے گا تو پہلے اس کا جائزہ چانسلر کی الیکشن کمیٹی کے نام سے ایک کمیٹی لے گی جو طے کرے گی کہ آیا امیدوار ضوابط کے دائرے میں آتا ہے یا اس کا نام فہرست سے باہر رکھا جائے۔
فہرست سے خارج کرنے والا معیار عمران خان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ وہ سرونگ رکن ہیں اور نہ ہی منتخب لیجسلیچر کیلئے منتخب امیدوار۔ یہ وہ واحد شق ہے جو عمران خان کو الیکشن سے باہر رکھ سکتی ہے۔ بصورت دیگر بھی دیکھیں تو آکسفورڈ یونیورسٹی سیاستدانوں کو چانسلر کے عہدے کیلئے الیکشن لڑنے سے روکتی ہے۔
رواں سال اپریل میں یونیورسٹی کے رجسٹرار کے ذریعہ آکسفورڈ کے ماہرین تعلیم کو بھیجی گئی ایک ای میل (جسے ٹیلیگراف اخبار کو لیک کیا گیا) میں بتایا گیا تھا کہ ارکان اسمبلی یا سیاست میں سرگرم افراد کو اگلا چانسلر بننے سے روکا جائے گا۔
اس اقدام پر یونیورسٹی پر تنقید بھی ہوئی کیونکہ 15ویں صدی سے یہ عہدہ سیاسی پس منظر رکھنے والے افراد نے ہی حاصل کیا تھا۔ اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے یونیورسٹی نے کہا تھا کہ نئے قواعد ان افراد پر لاگو ہونا ہیں جو بحیثیت یونیورسٹی چانسلر پارلیمنٹ کا رکن بننے کی امید رکھتے ہیں یا رکن بننا چاہتے ہیں۔
اس وقت تک برطانیہ کے تین سابق وزیر اعظم (ٹونی بلیئر ، بورس جانسن اور تھریسا مے) چانسلر بننے کا ارادہ ظاہر کر چکے تھے۔