• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبر داد خان
6ستمبر1965ہماری تاریخ کا وہ دن ہے جس دن ایک مستحکم پاکستان نے اپنے سے کئی گنا بڑے مخالف کے حملہ کو روکا اور بھارتی جرنیلوں کے اس خواب کو چکناچور کردیا کہ وہ کامیابی سے آگے بڑھ کر لنچ مفتوح لاہور کے جم خانہ میں کریں گے۔ مجھے اس دن تقریباً11بجے سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم کا قوم سے خطاب یاد ہے۔ اس خطاب میں مقبوضہ کشمیر کے اندر چلتی تحریک آزادی کو مرکزیت حاصل تھی، جس میں صدر پاکستان نے کشمیری حریت پسندوں کے جوش و جذبہ کو خراج عقیدت پیش کیا اور بھارت اور دنیا پر واضح کیا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل تک تحریک آزادی کو سپورٹ کرتا رہے گا۔ ایوب خان مرحوم نے اپنی پرعزم آواز میں بھارت پر واضح کیا کہ ہندوستان والوں کو علم نہیں ہے ’’انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘۔ حالات کی مجبوریوں کے تحت چند سال بعد وہ پرانا متحدہ پاکستان قائم نہ رہ سکا۔ ہمیں بہت دیر بعد احساس ہو رہا ہے کہ پاکستان کے خلاف سازشوں کا گہرا جال بچھ چکا ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سے ملک کو مزید کمزور کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ حکومتی وزراء سمیت ریاستی حکمران اشرافیہ آج کل ذرائع ابلاغ کے ذریعہ خود پر سوال اٹھا رہی ہے کہ ہم بحیثیت ریاست آج تک دہشت گردی پر کیوں قابو نہیں پاسکے۔ ہم دہشت گردی پر کیوں قابو نہیں پا رہے، ایک انتہائی گہرا سوال ہے، ریاست کے پاس افواج پاکستان کی شکل میں جو جذبہ حریت پسندی اور ملک کی خدمت میں سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں کا ایک عظیم اثاثہ موجود ہے، اگر کمزوریاں ہیں تو وہ ہمارے قومی بیانیہ میں ہوسکتی ہیں۔ ہمارے سیاسی ماحول سے جڑی ہوسکتی ہیں اور ہماری قومی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور غربت اور بیروزگاری کے معاملات ہوسکتے ہیں۔ جب تک تعلیمی نظام میں یکسانیت نہیں آئے گی، جب تک لوگوں کے درمیان مستحکم پاکستان کی تصویر معیشت اور اقتدار کے ایوانوں سے نہیں ابھرے گی، پاکستان مخالف قوتیں صورتحال سے فائدہ اٹھاتی رہیں گی۔ کے پی اور بلوچستان میں عوام کے مطالبات اور وسائل تک ان کی رسائی ممکن بنا کر ہی ملک استحکام کا خواب دیکھ سکتا ہے۔ بلوچستان سب سے زیادہ شورش زدہ صوبہ ہے، وہاں کے عوام کو اقتدار میں شامل کرنا استحکام کا مرکزی نقطہ افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ملک 77سال بعد بھی ایک مستحکم پاکستان کے خواب کی تکمیل کیلئے سرگرداں ہے۔ ہم کیوں اس خواب کو حقیقت میں نہیں بدل سکے ہیں۔ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پاس میٹریل موجود ہے، مگر ہم اس سے ایک پائیدار عمارت کھڑی کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے۔ جواب دینے سے اقتداری اشرافیہ کا ہر رکن قاصر ہے۔ ہر سو پراسرار خاموشیاں ہماری ناکامی کی داستانیں ہیں۔ حکومتی اشرافیہ ہماری ایسی کمزوریوں میں سے بھاری اکثریت کی ذمہ دار ہے، جب سیاست میں دھاندلی مقدم خیال کی جائے گی، جب سیاسی جماعتوں کے قائدین سے غیر مساوی سلوک حکومتوں کے قابل تعریف رویے مانے جائیں گے۔ (جیسا کہ ایک بڑی قومی جماعت کے ساتھ کیا جارہا ہے) تو ایسے رویے بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کرتے ہوئے معاشرے میں بھونچال برپا کرتے ہوئے تباہی پھیلاتے ہیں۔ جب حکومتیں درست اعدادو شمار کے تحت وجود میں نہیں آتیں۔ متعلقہ ادارے مخصوص جماعتوں کی غیر قانونی مدد کے ذریعہ ان کو حکومتی بنچوں پر بٹھاکر جمہوریت کو دفن کرنے کے عمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ (جیسا کہ پاکستان میں ہوا ہے) تو لوگ سیاست سے بدظن ہوکر اپنی توانائیاں اور سوچیں دوسری چیزوں کی طرف مبذول کرلیتے ہیں۔ جب سیاست میں شفافتگی نہ رہے۔ جب منصف خود انتقامی سوچ کے مظہر بن جائیں۔ جب ممبران اسمبلی پر دباؤ کے ذریعہ وفاداریاں تبدیل کروائی جائیں، تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوجاتا ہے پاکستان کچھ برسوں سے مشکل حالات میں اپنا پرچم تھامے آگے بڑھنے کی کوشش کررہا ہے۔ سیاسی اور معاشرتی محاذ پر قوم ایک صبر آزما دور سے گزر رہی ہے اور پاکستان اپنی مزید بہتری کی تصویر میں رنگ بھرنے کے لیے کسی مصور کے انتظار میں ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی پاکستان کے مستقبل کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ مایوسی گناہ ہے۔ بانی پی ٹی آئی بھی یہی کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں، حکومت بھی اسی طرح کی بات کرتی ہے، جب ملک کی یہ تین قوتیں مل کر مستحکم پاکستان کی بات کررہی ہیں تو پاکستان غیر مستحکم نہیں ہوسکتا۔
یورپ سے سے مزید