تفہیم المسائل
سوال: اگر کوئی عادی شرابی، زانی شخص مرجاتا ہے تو کیا اُس کی نمازِ جنازہ پڑھائی جائے گی اور مسجد کا امام نمازِ جنازہ پڑھائے یا نہیں؟
جواب: ہر مسلمان خواہ وہ کیساہی گنہگار اور مرتکبِ کبائر ہو ،اُس کی نمازِ جنازہ پڑھائی جائے گی۔ حدیث ِپاک میں ہے :’’تم پر ہر مسلمان کی نمازِ جنازہ فرض (کفایہ)ہے نیک ہو یا بدکار ،اگرچہ کبائر(گناہ) کا مرتکب ہواہو،(سُنن ابوداؤد:2525)‘‘۔
علامہ علاء الدین حصکفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ ہرمسلمان کی نمازِ جنازہ فرض ہے ،سوائے چار کے :(۱) امیر المسلمین کاباغی ،(۲)ڈاکو، اِنہیں نہ غسل دیاجائے گا اور نہ اُن پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، جبکہ یہ لڑائی میں مارے گئے ہوں۔
اگر اُس کے بعد مرگئے تو اُن پر نماز پڑھی جائے گی اور اِسی طرح جو براہِ عصبیت (لڑتے ہوئے) مارے گئے ہوں،(۳)اسی طرح رات کو شہر میں لوٹ مار کرنے والا،گلا دباکر مارنے والا۔ (۴) اپنے والدین میں سے کسی کو قتل کرنے والا، ’’نہرالفائق‘‘ میں اُسے بھی باغیوں میں شمار کیا ہے ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد3، ص:99) ‘‘ اگر زجر کے لئے اکابرعلماء وخطباء خود نمازِ جنازہ نہ پڑھائیں، دوسروں سے پڑھوادیں تو کوئی حرج نہیں۔
امام احمد رضاقادریؒ سے بے نمازی کی نمازِ جنازہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ جواب میں لکھتے ہیں: ’’ مسلمان اگرچہ بے نمازی ہو، اس کے جنازے کی نماز مسلمانوں پر فرض ہے ۔ اگر کوئی نہ پڑھے گا، جتنوں کو خبر ہو، سب گنہگار وتارکِ فرض رہیں گے ۔ہاں اگر زجر کے لئے علماء خود نہ پڑھیں، دوسروں سے پڑھوادیں تو بے جا نہیں، اور اگر اُن کے نہ پڑھنے سے اوربھی کوئی نہ پڑھے یا اُنہیں بھی منع کریں تویہ علماء بھی مستحقِّ عذاب ِنار ہوں گے ،بلکہ جُہَّال سے زیادہ۔(فتاویٰ رضویہ ، جلد9،ص:162)‘‘۔