• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب ترامیم بحال، عمران خان ثابت نہیں کرسکے یہ غیر آئینی ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد (رپورٹ :رانامسعود حسین) سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین، عمران خان کی جانب سے نیب (ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2022 کیخلاف دائر کی گئی آ ئینی درخواست پر تین رکنی بنچ کی جانب سے جاری کئے گئے فیصلے کیخلاف وفاقی حکومت وغیرہ کی جانب سے دائر انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آئینی ترامیم کیخلاف دائرعمران خان کی درخواست قابل سماعت ہی نہیں تھی، عمران نیازی غیر آئینی ثابت نہیں کرسکے، ان ترامیم میں سے بہت سی ترامیم کے معمار عمران نیازی خود تھے، انہوںنے نیک نیتی سے یہ درخواست دائر نہیں کی تھی، عدالت نے کہا آئین میں عدلیہ اور مقننہ کا کردار واضح، دائرہ کار میں مداخلت سے احتیاط برتنی چاہئے، مشرف نے اقتدار پر قبضے کے بعد نیب قانون سیاسی انتقام اور سیاسی انجینئرنگ کیلئے استعمال کیا، نیب(ترمیمی) ایکٹ شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم کیسے؟، کالعدم کرنے کے مرکزی فیصلے میں اسے آئین کی کسوٹی کی بجائے، ذاتی پیمانے اور معیار پر پرکھا گیا، ادارے اس وقت ہی بہتر طور پر عوام کی خدمت کرسکتے ہیں جب وہ ایک دوسری کی بھی عزت کریں اورآئین کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دیں، چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج پارلیمنٹ کے چوکیدار نہیں ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اپنے اضافی نوٹ لکھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ججز اور آرمڈ فورسز کے ارکان کو نیب قانون سے استثنیٰ حاصل نہیں، اضافی نوٹ کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سید اظہر حسن رضوی پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے جمعہ کے روز وفاقی حکومت اور دیگر فریقین مقدمہ کی جانب سے دائر انٹرا کورٹ اپیلوں کا محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ جب تک پارلیمنٹ کی جانب سے بنایا گیا قانون آئین کی شقوں سے واضح طور پر متصادم نہ ہو اسے کالعدم نہیں کرنا چاہیے تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آئین کی شقوں سے واضح متصادم قانون کو غیر آئینی قرار دیکر کالعدم نہیں کیا جاسکتا ہے، عدالت نے قراردیاہے کہ اس مقدمہ میں سب سے پہلے اس بات کا تعین کرنا ضروری تھا کہ نیب ایکٹ میں کی گئی ترامیم مفاد عامہ کے خلاف اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں،16 صفحات پر مشتمل فیصلہ ،چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قلمبند کیا ہے جبکہ بینچ کے تمام اراکین نے اس سے اتفاق کیا ہے،تاہم تاہم جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ایک علیحدہ اضافی نوٹ میں پرائیوٹ فریقین کی اپیلیں تو منظور کرلی ہیں جبکہ وفاقی حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ2023 کی دفعہ 5کے تحت وفاقی حکومت یہ اپیل دائر کرنے کی مجاز نہیں تھی، جسٹس سید اظہر حسن رضوی نے بھی ایک علیحدہ اضافی نوٹ قلمبند کرتے ہوئے قراردیاہے کہ وہ ان اپیلوں کومنظور کرنے کی اپنی وجوہات بعد میں تحریر کرینگے۔ عدالت کے متفقہ فیصلے میں قراردیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023کے تح تسابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ درخواست گزار ،عمران خان کی آئینی درخواست کی سماعت کا مجاز ہی نہیں تھا، عدالت نے قراردیاہے کہ تین رکنی بنچ کے اکثریتی فیصلے میں نیب ترامیم کو آئین کے آرٹیکل 4,9,14,24 اور25کے خلافت تو قراردیا گیا تھا لیکن وجوہات میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ نیب ترامیم کیسے مذکورہ آئینی شقوں کیخلاف ہیں۔عدالت نے فیصلہ کے آغاز میں نیب قانون کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سابق آرمی چیف، پرویز مشرف نے ایک جمہوری آئینی نظام کو باہر پھینک کر زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا اور خود کو انتظامی و قانون سازی کے اختیارات تفویض کردیے تھے۔


اہم خبریں سے مزید