کراچی (اے ایف پی)معاشی مشکلات ، پاکستانی خواتین کے ملازمتوں کے رحجان میں اضافہ ، گھر والوں کا سہارا بننے کیلئے موٹرسائیکل چلانے سے لیکر فیکٹری ملازمتوں پر مجبور ، ورک فورس کا صرف 21فیصد خواتین پر مشتمل، نصف کھیتوں میں کام کرتی ہیں، ملازمت پیشہ خواتین کا کہنا ہے کہ کام کرنا سماجی طور پر اتنا ہی ناقابلقبول رویہ ہے جتنا اپنی پسند سے شادی کرنا، پاکستان میں پہلی خاتون وزیراعظم ،خواتین نے پولیس اور فوج میں بھی جگہ بنائی ، بیشتر لوگوں کی روایتی سوچ ، خواتین کو ملازمت کیلئے خاندان سے اجازت لینالازمی، کراچی سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دو کروڑ افراد کا گھر ہے تاہم اس سے زیادہ کروڑوں دیگر افراد بھی شہر سے وابستہ ہیں جو یہاں روزگار کیلئے آتے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں ۔ آمنہ سہیل موٹر سائیکل پر سوار اپنی اگلی رائڈ کو لینے کے لیے کراچی کی بھیڑ والی ٹریفک میں سے گزرتی ہیں۔ کراچی جیسے گنجان آباد شہر میں بھی کسی عورت کا موٹر سائیکل چلانا کئی آنکھوں کے لئے نئی بات ہے۔ 28سالہ آمنہ اپنے خاندان میں کام کرنے کے لیے گھر سے نکلنے والی پہلی خاتون ہیں جو پاکستان میں بڑھتے ہوئے مالی دباؤ کے شکار شہری گھرانوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ خواتین کو شہر کی گلیوں میں ان کی منزل تک پہچانے کے لیے رواں سال کے آغاز میں ایک رائیڈ ہیلنگ سروس سے وابستہ ہونے والی میں آمنہ نے بتایا: ’میں لوگوں کی باتوں پر توجہ نہیں دیتی، نہ کسی سے بات نہیں کرتی ہوں اور نہ ہی کسی کے جملوں کا جواب دیتی ہوں، بس اپنے کام سے کام رکھتی ہوں۔‘ انہوں نے مزید کہا: ’اس کام سے پہلے ہم بھوکے رہتے تھے لیکن اب ہمیں دن میں کم از کم دو سے تین وقت کا کھانا میسر ہو جاتا ہے۔‘ جنوبی ایشیائی قوم سیاسی اور معاشی بحرانوں میں پھنسی ہوئی ہے جو اپنے خسارے سے نکلنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بیل آوٹ پیکجز اور دوست ممالک کے قرضوں پر انحصار کر رہی ہے۔ طویل مہنگائی نے بنیادی خوردنی اشیا جیسے ٹاٹروں کی کی قیمت میں 100فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال جولائی کے مقابلے میں بجلی اور گیس کے بلوں میں300فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آمنہ اپنی والدہ کی کھانا پکانے، صفائی ستھرائی اور چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال میں مدد بھی کرتی ہیں کیوں کہ ان کے والد، جو خاندان کے واحد کفیل تھے اب بیمار پڑے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا: ’گھر کا ماحول تناؤ کا شکار تھا اور میرا خاندان پیسے کے لیے دوسرے رشتہ داروں کا محتاج تھا تو اس وقت میں نے سوچا کہ مجھے کام کرنا چاہیے۔ میرا نکتہ نظر بدل گیا ہے۔ میں نے سوچا میں کسی بھی مرد کی طرح کام کروں گی، چاہے کوئی کچھ بھی سوچے۔‘ 1980کی دہائی میں پاکستان وہ پہلا مسلم ملک تھا جس کی قیادت ایک خاتون وزیر اعظم نے کی تھی، فوربس میگزین میں پاکستانی خواتین سی ای اوز نے جگہ بنائی، اور اب وہ پولیس اور فوج میں بھی شامل ہیں۔ تاہم پاکستانی معاشرے میں زیادہ تر لوگ اب بھی روایتی سوچ رکھتے ہیں جس میں خواتین کو گھر سے باہر کام کرنے کے لیے اپنے خاندان سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں ورک فورس کا صرف 21فیصد خواتین پر مشتمل ہے جن میں سے زیادہ تر غیر رسمی شعبے میں اور تقریباً نصف دیہی علاقوں میں کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔ کراچی کے سب سے بڑے صنعتی علاقے کورنگی میں ایک چمڑے کے کارخانے میں کام کرنے والی 24سالہ ٹیلی فون آپریٹر حنا سلیم نے کہا کہ ’میں خاندان کی پہلی لڑکی ہوں جو کام کے لیے باہر نکلی ہوں۔‘ والد کے انتقال کے بعد حنا جب کام کے لیے گھر سے نکلیں تو انہیں اپنے خاندان کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے چھوٹے بھائی کو خبردار کیا گیا تھا کہ کام کرنا سماجی طور پر اتنا ہی ناقابل قبول رویہ ہے جتنا اپنی پسند سے شادی کرنا۔ حنا نے بتایا:’میرے ماموں نے کہا کہ اس کی شادی کر دو۔ میری ماں پر بہت دباؤ تھا۔‘ اسی فیکٹری میں ڈیٹا انٹری کے شعبے میں کام کرنے والی 19سالہ انعم شہزادی کو ان کے والدین نے عمومی سماجی رویے کے برعکس ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد کام کرنے کی ترغیب دی۔