• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسطین کے موجودہ حالات اور علمائے کرام کی ذمہ داری

آپ کے مسائل اور ان کا حل

سوال: کیا فلسطین کا مسئلہ ایسانہیں کہ پاکستان کے علماء متحد ہوکر حکومتِ وقت کو فلسطین کے حق میں کچھ کہنے اور کرنے پر مجبور کریں، اس سلسلہ میں وفاق المدارس العربیہ کیوں کوئی اقدام نہیں کررہا؟ نیز کیا ممبر پرخطبہ دینے سےہمارا فریضہ ادا ہوجائے گا؟

جواب: بلاشبہ ،فلسطین کا حالیہ قضیہ اس وقت اُمتِ مسلمہ کے لیے اہم ترین قضیہ ہے، اُمتِ مسلمہ کے تمام طبقے اور افراد اپنی اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق فلسطین اور بالخصوص غزہ کے مسلمانوں کی مدد کے مکلّف ہيں۔

مسلمان کی شان یہی ہے کہ اپنے فریضے کی ادائیگی میں استطاعت کے مطابق پوری کوشش کرکے بھی مطمئن و قانع نہ ہو، نگاہ اپنے عمل پر نہ ہو، اس کا دکھلاوا نہ کرے، دوسروں کو جتلائے نہیں، بلکہ جو کچھ کرے محض اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے لیے عبادت سمجھ کر کرے، لہٰذا سائل کا اس حوالے سے فکر مند ہونا تو بجا ہے کہ مظلوم اہلِ فلسطین کی جس سطح پر عالمِ اِسلام کی طرف سے داد رسی ہونی چاہیے تھی، اس میں اُمتِ مسلمہ کی طرف سے کوتاہی واضح نظر آرہی ہے،تاہم اس اجتماعی کمزوری کا ذمہ دار اُمت کے کسی ایک طبقے کو ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔

مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے عوام و خواص میں سے جو بھی کسی درجے میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے وہ علّام الغیوب ذات کے علم میں ہے، بندوں کے سامنے اس کے اِظہار کی ضرورت نہیں ہے، تاہم سائل اور دیگر مخلص مسلمان جو اِس حوالے سے فکر مند ہیں ان کے اطمینان اور مزید دعاؤں اور توجہات کی شمولیت کے لیے عرض ہے کہ وفاق المدارس العربیہ کے اَکابر اہلِ علم سمیت دیگر علمائے کرام اپنی تحریر ، بیان اور مختلف ذرائع سے اس فریضے کی ادائیگی کی سعی میں مصروف ہیں، علمائے کرام جہاں منبر و محراب سے اپنے بیانات کے ذریعے اور فتویٰ و صحافت کے سنجیدہ میدان میں اپنے فتاویٰ و مضامین کے ذریعے عام مسلمانوں اور حکمرانوں کے اندر اس مذہبی فرض کی ذمہ داری کا شعور بیدار کررہے ہیں، وہیں منظم و پُر اَمن احتجاج اور سیاسی ذرائع سے اَربابِ اقتدار کو اس مسئلے کے حل کی طرف بھی متوجہ کر رہے ہیں، نیز فلسطینی مسلمان بھائیوں کی مالی و طبی اور حتیٰ المقدور ہر طرح کی امداد میں عملی طور پر پیش پیش بھی ہیں، مظلوم اہلِ فلسطین کا ہمارے علمائے کرام سے ربط اور ان پر اعتماد اِن خدمات کا اعتراف ہے۔

وطنِ عزیز میں اس وقت جو علمائے کرام اپنے اپنے دائرے میں جس طور پر بھی مسئلۂ فلسطین کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں، خواہ وہ مسئلۂ فلسطین سے آگاہی اور عوامی شعور کی بےداری ہو یا رفاہی نوعیت کی خدمات ہوں یا منظم و پر اُمن احتجاج ہو یا سفارتی و سیاسی سطح پر مؤثر آواز بلند کرنے کی سعی ہو، یہ سب اَکابر اہلِ علم کی مشاورت، ان کی دعاؤں اور سرپرستی کے نتیجے میں ہی ہے، بلکہ عوام الناس اور دیگر طبقات کی طرف سے بھی اس حوالے سے جتنی مثبت کوششیں ہورہی ہیں، انہیں علمائے کرام کی تائید حاصل ہے، لہٰذا انہیں اپنے فریضے میں کوتاہ شمار نہیں کیا جاسکتا۔

غرض اس مسئلے میں علمائےکرام اجتماعی اور انفرادی طور پر حسبِ استطاعت کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ پوری اُمتِ مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ اور درد ہے، لہٰذا پوری اُمتِ مسلمہ کا دینی و اخلاقی فرض ہے کہ وہ متفق و متحد ہو کر فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہر قسم کا ہر ممکن تعاون کرے، ان کی نصرت و حمایت کے لیے اُمت کے تمام طبقے اپنی حیثیت اور وسعت کے مطابق ہر ہر سطح پر بھرپور کردار ادا کریں، اپنے ملکی قانون اور دستور کے دیے گئے حقوق کے تحت اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی وسعت و قدرت کے تحت اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی داد رسی کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لائیں اور مسلمان حکمرانوں پر شرعًا و اخلاقًا لازم ہے کہ بیت المقدس کے مظلوم مسلمانوں کی نصرت و حمایت کے لیے میدانِ عمل میں آئیں، اور اُن کے تحفظ، دفاع اور بحالی کے لیے اپنی دفاعی طاقت، انسانی حقوق اور سفارتی اثر و رسوخ کا بھرپور استعمال کریں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری اُمتِ مسلمہ کو اپنے فرائض و ذمہ داریاں سمجھنے اور انہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور فلسطین وکشمیر کے مظلوم مسلمانوں اور تمام مظلوم مسلمانوں کی مدد و نصرت فرمائے۔(آمین یا ربّ العالمین)