• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: سید علی جیلانی…سوئٹزر لینڈ
ربیع الاول کے لغوی معنی پہلی بہار کے ہیں۔اس ماہ کو تاریخ ِ انسانی میں خاص مقام حاصل ہے ربیع الاول ہجری سال کا اہم سنگِ میل اور تاریخ عالم میں نمایاں اور کلیدی مقام رکھتا ہے۔ یہ وہ با برکت اور بہار آفرین مہینہ ہے جس کی آمد سے چمنستان دہر کی مرجھائی ہو ئی کلیاں کھل اُٹھیں خزاں رسیدہ گلستان سر سبز شاداب ہو گئے۔ اسی ماہ میں نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان جن پر انسانیت کو فخر ہے صدیوں سے دکھی تڑپتی سسکتی انسانیت جس مسیحا اعظم کے انتظار میں تھی وہ چاند اِسی ماہ حضرت آمنہ کے آنگن میں اِس شان اور تابناکی سے چمکا کہ کرہ ارض کا چپہ چپہ حید کے نور سے جگمگا اُٹھا ۔عبدالمطلب فرماتے ہیں جس رات ننھے محمد ﷺ کی ولادت باسعادت ہو ئی اُس رات میں کعبہ میں تھا میں نے بتوں کو دیکھا کہ سب بت اپنی جگہ سے سر کے بل گر پڑے ہیں اور دیوار کعبہ سے یہ آواز آرہی ہے کہ مصطفیﷺ مختار پیدا ہو ا اُسکے ہاتھ سے کفار ہلاک ہوں گے اور کعبہ بتوں سے پاک ہو گا اور وہ اللہ کی عبادت کا حکم دے گا جو حقیقی بادشاہ اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ بلا شبہ حضرت آمنہ کے آنگن میں چمکنے والے چاند اور مہکتے والے پھول کی خوشبو سے سارا عالم معطر اور روشن ہو گا۔ 12 ربیع الاول تاریخ انسانیت میں وہ متبرک گھڑی ہے جس میں آفتاب رسالت کی روشنی نے جہان کو گمراہیوں اور تاریکیوں سے نکالا اور رب ذوالجلال نے سسکتی ہوئی انسانیت کو رحمت اللعالمین کی نعمت سے نواز ا جن کی ذات تمام بنی نوع انسانوں کیلئے نعمت رحمت اور مشعل را ہ ہے۔ میلاد” کا معنیٰ ہے ولادت کا وقت یا عظیم الشان ولادت” مولد کا معنی بھی ولادت کا وقت ہے۔ اہل اسلام کے عرف میں میلاد یا مولد سے مراد سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہے اور محفل میلاد یا جلسہ میلاد یا میلاد کانفرنس سے مراد ایسا روح پرور اجتماع ہے جس میں سرکارِ مدینہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت طیبہ کے زمانے میں ظاہر ہونے والے عجیب و غریب واقعات کا تذکرہ کرکے برکات حاصل کی جائیں۔ محدث ابن جوزی جن کی وفات شاہ اربل ملک مظفر سے 33 سال قبل ہوئی فرماتے ہیں: ”زمانہ قدیم سے اہل حرمین شریف ( مکہ مکرمہ و مدینہ طیبہ) مصر یمن شام اور تمام عرب ممالک اور مشرق و مغرب کے مسلمانوں کا معمول رہا ہے کہ وہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے ہی میلاد شریف کی محفلیں منعقد کرتے خوشیاں مناتے غسل کرتے عمدہ لباس زیب تن کرتے قسم قسم کی زیبائش وآرائش کرتے خوشبو لگاتے۔ ان ایام میں خوب خوشی ومسرت کا اظہار کرتے حسب توفیق نقد وجنس لوگوں پر خرچ کرتے میلاد شریف پڑھنے اور سننے کا اہتمام بلیغ کرتے اور اس کی بدولت بڑا ثواب اور عظیم کامیابیاں حاصل کرتے۔ میلاد کی خوشی منانے کے مجربات سے یہ کہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے سال بھر کثرت سے خیر و برکت سلامتی و عافیت رزق ومال میں زیادتی اور شہروں میں امن و امان اور گھر بار میں سکون و قرار رہتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ پوری دنیا میں قدیم زمانہ سے میلاد منانا مروج تھا۔ محبت ایک فطری عمل ہے محبت کے دم سے کائنات کا وجود روشن ہے اسی محبت کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو مبعوث فرمایا ۔ان کی محبت میں اس کائنات کو تخلیق کیا اور فرمایا جس نے میرے نبی کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطا عت کی جس نے میرے نبی سے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی۔ گویا کہ اس کائنات کے خالق نے خود سے محبت سے پہلے نبی کی محبت کی شرط رکھ دی لااِلٰہ َ اِلااللہ ”کے ساتھ”محمد الرَّسول اللہ” لگاکر اللہ و محمد کے ذکر کو یکجا کیا اور زبان سے اقرار کرنے و دل سے اس کی تصدیق کو ایمان سے رجوع قرار دیا اور پھراذان و نماز کی کاملیت کو ذکر مصطفیٰ سے مشروط کرکے اپنے محبوب سے محبت کا جو اظہار کیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ محبت مصطفیٰؐسے خالی دل کبھی حُب الہٰی کی جانب راغب نہیں ہوسکتا ۔خالق کو اپنے محبوب کے ذکر کو آسمانوں سے باہر پھیلانا اور تمام جہانوں کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآالہ وسلم کے ذکر سے معمور کرنا تھاکیونکہ سبب تخلیق کائنات بھی یہی تھا یہی وجہ ہے کہ رب نے اپنے ذکرکے ساتھ محمد کے ذکر کو لازم کردیا اور اذان و نماز کو بھی اس ذکر سے مشروط کرکے اس ذکر کو ہر لمحہ ہر ساعت کیلئے لازم بنادیا حضور ختم المرسل ﷺ نے حیات انسانی کے ہر شعبے ہر گوشے میں مکمل ہدایات اور مثالی اعمال کے ذریعے ہمیں سیدھا سچا اور بہترین راستہ بتایا ہے۔ پھر انسانوں کے ہر طبقے اور گروہ کیلئے اس سیرت پاک میں نصیحت پذیری اور عمل کی رہنمائی موجود ہے جو لوگ بچپن میں ناسازگار ماحول میں گھرجاتے ہیں ان کیلئے آمنہ کے لال اور دریتیم محمد ﷺ کے بچپن میں تسلی واطمینان کا سامان ہے نوجوانوں کیلئے آنحضور کی حیاداری میں نمونہ عمل ھے جو کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ حیادار تھے ۔تاجروں کیلئے مکہ معظمہ کے اس تاجر کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے جس کے تجارتی لین دین کی سچائی اور معاملے کی صفائی کا شہرہ ملک شام تک ھیاس کی طرح اگر تم حکمران ھو تو سلطان عرب کا حال پڑھو اگر رعایا ھو تو قریش کے مجاہد کو ایک نظر دیکھو اگر تم استاد اور معلم ھو تو صفہ کی درسگاہ کے معلم کو دیکھو اگر تم بیویوں کے شوہر ھو تو حضرت خدیجہ الکبری اور حضرت عائشہ صدیقہ کے مقدس شوہر کی حیات پاک کا مطالعہ کرو ہمیں یہ بھی ظاہر کرنا چاہئے کہ ہماری عقیدت محض کاغذی پھولوں یا آرائشی دروازوں کی طرح نمائشی نہیں بلکہ ہمارے قول و فعل اور اعمال و افعال میں اس جلیل القدر پیغمبر ﷺ کی تعلیمات کا اثر نظر آنا چاہئے۔ ہماری زندگی کی ایک ایک سانس میں نبی کریمﷺ کے ساتھ ہمارے قلبی لگاؤ کی حدت محسوس ہونا چاہئے اور ہمارے دلوں کی ہر ہر دھڑکن سے رسالت مآب حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ سے ہماری دلی محبت کا اظہار ہونا چاہئے ہمارا سونا جاگنا اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا حتیٰ کہ کھاناپینا غرض ہمارا ہر فعل خدا کی اس برگزیدہ ہستی کے طور طریقوں یا باالفاظ دیگر حضورﷺ کے اسوہ ء حسنہ کا آئینہ دار ہونا چاہئے ۔ہم بولیں تو سننے والے کو محسوس ہو کہ نبی ﷺ کا کوئی شیدائی بول رہا ہے یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دراصل انسانیت پر اللہ کے احسانات کی یاد دلاتا ہے جس میں سے ایک یہ ہے کہ اس دن انسانیت کو وہ اسوہ حسنہ اور خلق عظیم کی نعمت عطا ہوئی جس کیلئے گوشے سے امن، محبت مساوات اور علم عرفان کو نور پھوٹتا نظر آتا ہے ہمیں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن مناتے ہوئے کبھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم نجات بھی تھا شرک سے نجات جہالت سے نجات ظلم سے نجات غلامی زنجیروں سے نجات شیطان اور طاغوت کے ہتھکنڈوں سے نجات اور جھوٹے خدائوں کی اذیت ناک خدائی سے نجات اگر مسلمان حقیقی معنوں میں رب کی عبادت کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت وسیرت پر بھی عمل پیرا ہوجائیں تو ہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بن جائے۔
یورپ سے سے مزید