کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی کے صوبائی نائب امیر ، حق دو تحریک بلوچستان کے سربراہ رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کو روزگار تو نہیں دے سکتی ہیں لیکن بارڈرز سے روزگار کے راستے بھی بند کررہی ہیں ،صوبے میں صنعتیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ذریعہ معاش بارڈر ٹریڈ سے وابستہ ہے چمن سے گوادر تک تمام سرحدی کراسنگ پوائنٹ بارڈر ٹریڈ کے لئے کھولے جائیں تاکہ اس سرحد پر آباد 30 لاکھ لوگوں کو روزگار میسر آسکے ۔یہ بات انہوں نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ، اس موقع پر جماعت اسلامی کے مولانا عبدالحمید منصوری ، عبدالولی شاکر سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے جس کی بڑی وجہ وفاقی حکومت کے زمینی حقائق کے برخلاف فیصلے ہیں ، حکومت نے بارڈر ٹریڈ کو اسمگلنگ کا نام دیکر اور 200 ارب روپے کے نقصان کو جواز بناکر چمن سے گوادر تک ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران کے ساتھ بارڈر ٹریڈ بند کردی ہے ان سرحدی کراسنگ پوائنٹس سے 25 سے 30 لاکھ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے بیک قلم جنبش بارڈرز کو بند کرکے 30 لاکھ لوگوں کو بے روزگار کردیا ہے جبکہ ان کو روزگار کا کوئی متبادل ذریعہ بھی فراہم نہیں کیا گیا ۔لسبیلہ میں 172 فیکٹریاں ہیں جہاں پر ہزاروں کارکن کام کرتے ہیں ان میں بمشکل 20 فیصد بلوچستان کے لوگ ہیں اسی طرح گڈانی شپ یارڈ میں بھی بلوچستان کے لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، ان صنعتی یونٹوں کے ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہونے کی وجہ سے وفاق کو اربوں روپے کا ریونیو اور ٹیکس حاصل ہورہا ہے لیکن ہمارے لوگ بے روزگار ہورہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بارڈرز پر کاروبار کو اسمگلنگ کا نام نہ دیا جائے ۔