• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائیڈپارک … وجاہت علی خان
پچھلے 100سال سے کرۂ ارض پر سیاسی جغرافیائی حدود میں بے پناہ تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ ان تبدیلیوں نے پوری دُنیا پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ برصغیر پاک وہند، افریقہ، اور یورپ کی حدود میں یکسر اور نمایاں تبدیلیوں میں برطانیہ،امریکہ، روس اور بعض یورپی ممالک کا براہ راست عمل دخل ہے ، یوکرین روس تنازع اپنی جگہ لیکن آج صورتحال کچھ یوں ہے کہ مشرق وسطی وُہ واحد خطہ ہے جس سے عالمی دُنیا کی سیاست کا مستقبل وابسطہ ہے، اسرائیل جو جدید فوجی ہتھیاروں کے حساب سے اپنے ارد گرد کے ملکوں میں انتہائی طاقتور ہے اور چاہتا ہے کہ فلسطین، لبنان اور خطے میں موجود اپنے مخالفین کو نابود کر کے اپنے لئے نئی جغرافیائی حدود متعین کرے اور اُس کی اس کوشش میں سُپر پاور امریکہ ہر لحاظ سے اُس کے ساتھ ہے، دوسری طرف روس اگرچہ یوکرین کے ساتھ جنگ میں الجھا ہوا ہے لیکن اس کے بوجود عالمی سطح پر ایک بیلنس بنائے رکھنے کی پوزیشن میں ضرور ہے یقینا چین بھی عالمی سیاست میں ایک بڑا “کھلاڑی” ہے اور بلاشبہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ عالمی ترقی اور تعاون کی ایک مثال ہے اور اب تو وُہ عالمی سیاست میں بھی کھل کر اپنا کردار ادا کر رہا ہے اس کی سب سے بڑی حالیہ مثال چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی ہے جس کے بعد ایران نے سعودیہ اور متحدہ عرب امارات میں اپنے سفیر مقرر کر دئیے ہیں اور تعلقات کی یہ بحالی بلاشبہ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک اہم تبدیلی ہے۔ اس ضمن میں سعودی عرب کی تیزی سے بدلتی ہوئی بنیادی انسانی حقوق، خصوصا مذہبی قوانین میں انقلابی تبدیلیاں اور عورتوں کو دی جانے والی سماجی آزادیوں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب بھی اب عالمی سطح اور خطے میں اپنے وژن 2030 کے زریعہ ایک اہم کردار ادا کرنے کا خواہشمند ہے۔ اہل دانش آگاہ ہیں کہ جنگیں جہاں تباہی لاتی ہیں وہاں انقلاب بھی لاتی ہیں پرانی اور فرسودہ چیزوں کو تباہ کر کے ان کی جگہ نئی اور صحت مند تعمیرات کرتی ہیں۔ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ دنیا میں اکنامک کوریڈور تعمیر ہو اور جنگ نہ چھڑے۔ اس وقت بھی دنیا میں ایک اور اقتصادی راہداری بنائی جا رہی ہے جو چین کو مشرق وسطیٰ سے جوڑے گی۔ اس لیے دنیا ایک بار پھر ایسی عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے جس طرح 1914 کی جنگ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ پہلی جنگ عظیم بھی اقتصادی راہداری پر لڑی گئی تھی اور تیسری عالمی جنگ بھی اقتصادی راہداری پر لڑی جا سکتی ہے۔ 1914 میں جرمنی اور اٹلی کو مشرق وسطیٰ کے لیے راہداری چاہئے تھی اور اب چین کو بھی مشرق وسطیٰ تک رسائی کے لیے راہداری چاہیے۔ کل بھی لڑائی مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ پر تھی اور آج بھی لڑائی مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ پر ہی ہے۔ جب جرمنی اور اٹلی مشرق وسطیٰ تک رسائی کیلئے اقتصادی راہداری بنا رہے تھے تو برطانیہ اور فرانس کو 10 سال انتظار کرنا پڑا تھا۔ 10 سال کے بعد حالات جنگ کی طرف مڑے تھے۔ اب بھی، چین کے شروع کردہ CPEC منصوبے پر 10 سال گزرنے کے بعد، ایسا لگتا ہے کہ صورتحال جنگ یا کشیدگی کی طرف جا رہی ہے کیونکہ چین نے CPEC منصوبہ 2013ع میں شروع کیا تھا اور امریکہ اور اس کے اتحادی 2023 تک صبر و تحمل سے ہر چیز پر نظر رکھے ہوئے تھے اور مانیٹر کر رہے تھے۔ آخر کار، CPEC کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ کی طرف سے ایک جوابی منصوبہ 10 ستمبر 2023 کو ہونے والے G-20 اجلاس میں پیش کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ہندوستان کو مشرق وسطیٰ اور یورپ سے جوڑنے کیلئےانڈیا،مڈل ایسٹ،یورپاکنامک کوریڈور کے نام سے ایک نئی اقتصادی راہداری تعمیر کی جائے گی۔ اس راہداری کے تحت یورپی ممالک کو جرمنی، اٹلی اور فرانس سے یونان تک ریلوے لائن کے ذریعے جوڑا جائے گا۔ اس کے بعد بحیرہ روم کے ذریعے یورپ کو مشرق وسطیٰ سے جوڑنے کا پروگرام ہے۔ مشرق وسطیٰ کو یورپ سے جوڑنے کیلئے اسرائیل کی بندرگاہ حیفہ کو چنا گیا ہے چونکہ ہندوستان بحیرہ روم پر نہیں ہے، اس لیے متحدہ عرب امارات کی بندرگاہوں کو بحر ہند کے ذریعے ہندوستان کو مشرق وسطیٰ سے جوڑنے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ عرب امارات کو اسرائیل کے بندرگاہ حیفہ سے جوڑنے کے لئے عرب امارات اور اسرائیل کے درمیاں ایک موٹر وے بنانے کا منصوبہ بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوئے ہیں اور عرب امارات کے سلطان شیخ محمد نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان راہداری کو دبئی،حیفہ راہداری کا نام دیا گیا ہے۔ اس پورے منصوبے میں، جیسا کہ مرکزی بندرگاہ کی حیثیت حیفہ بندرگاہ کی ہے، اس لیے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک سے جوڑنے کیلئے حیفہ سے سعودی عرب اور حیفہ سے اردن تک موٹر وے کی تعمیر کے منصوبے موجود ہیں۔ آہستہ آہستہ پورے مشرق وسطیٰ کو اسرائیل کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔ مشرق وسطیٰ میں سڑکوں کے اس جال کو پھیلانے کا مقصد چین کو یہ تاثر دینا ہے کہ چین پاکستان کی مدد سے مشرق وسطیٰ تک پہنچنے کے لیے جو راہداری بنا رہا ہے اس سے چین کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک پہلے ہی یورپی راہداری کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس لیے ان میں سے کوئی بھی ملک چین کا مال خرید نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ چین کو ان سڑکوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جو یورپی کوریڈور کے تحت مشرق وسطیٰ کو ملانے کیلئے بنائی جا رہی ہیں، چین کو مشرق وسطیٰ سے ملانے والی چین،پاکستان اقتصادی راہداری کا کام تقریباً 70 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ چین نے اس منصوبے میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ ایسے میں امریکہ کا اس راہداری کو فل اسٹاپ لگانے کا مقصد یہ ہے کہ چین منہ کے بل گر جائے چند سال قبل چین نے شنگھائی سے یورپ تک ٹرین چلا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ چین یورپ میں اپنے سامان کی فروخت کیلئے اقتصادی راہداری بنا رہا ہے۔ یہ کوریڈور چین کے ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) کاایک حصہ تھا، لیکن امریکہ، انڈیا،مڈل ایسٹ،یورپ اکنامک کوریڈور بنا کر اور یورپی ممالک میں ریلوے لائنیں بچھا کر چین کو یورپی منڈی سے بے دخل کر رہا ہے۔ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ ایک طرف یورپی مارکیٹ اور دوسری طرف مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ چین سے چھین جانے کے بعد چین کا ردعمل کیا ہو گا۔ چین براہ راست لڑائی کیلئے آگے نہیں آ رہا بلکہ خطے میں موجود تضادات کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس وقت چین، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کو اس راہداری کو روکنے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت-مشرق وسطی-یورپ اقتصادی راہداری منصوبہ 10 ستمبر 2023ع کو پیش کیا گیا تھا اور 7 اکتوبر 2023ع کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کر دیا تھا۔ حماس کوئی طاقتور ریاست نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالمی قوت ہے لیکن آج کے دور میں جنگیں اسی طرح لڑی جاتی ہیں۔ امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی مذہبی قوتوں کا استعمال کیا تھا اور چین وہی طریقہ استعمال کر کے حماس اور حوثی قوتوں کو اسرائیل کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد یہ بغاوت پولینڈ، مشرقی جرمنی اور مشرقی یورپی ممالک تک پھیل گئی تھی جس بغاوت نے بعد میں سوویت یونین کا تختہ الٹ دیا تھا۔ کیونکہ بین الاقوامی قوتیں جن بغاوتوں کی ہمت افزائی کرتی ہیں، وہ بغاوتیں جلد ختم نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر اسرائیل کے خلاف حماس کے حملے بند نہ ہوئے تو اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اسرائیل اس وقت اس لئے نشانہ ہے کیونکہ اسرائیل نے امریکہ کی طرف سے پیش کردہ راہداری کیلئے حیفہ کی بندرگاہ پیش کش کی ہے۔ اسی طرح چین،پاکستان اقتصادی راہداری کیلئے بندرگاہ کی پیش کش پاکستان نے کی ہے۔ اس لیے پاکستان بھی ایسی صورت حال میں پھنس سکتا ہے جیسے اسرائیل اس وقت پھنسا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستانی حکمران جو پہلے سکون کے ساتھ امریکہ سے امداد حاصل کرتے تھے وہی اب آئی ایم ایف کے قدموں پے گر کے قرض ملنے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ یہ بھی ایک کھلا سچ ہے کہ یہ قرض امریکہ، پاکستان کی معیشت کو زندہ رکھنے کیلئے دلاتا ہے۔ پاکستان کے لئے صورتحال ایسی ہے کہ وُہ اپنے معاشی بحران سے بچنے کیلئے اگر امریکہ کی طرف جاتا ہے تو چین کی ہمالہ سے اونچی دوستی زمین بوس ہونے کا خطرہ اور اگر چین کا ساتھ دیتا ہے تو اربوں ڈالر کی امداد اور معیشت کو خطرہ ہے۔ پاکستان کو ان دونوں ملکوں کی ضرورت ہے اور پاکستان کے پالیسی سازوں کو اپنی دانش سے کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہوگا کیونکہ اس وقت مشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ کی ایک بڑی وجہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) (CPEC) چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور اور امریکہ ، اسرائیل ، یورپ اور انڈیا کا India - Middle East - Europe Corridor ہی دکھائی دیتا ہے جو انڈیا کو مشرق وسطیٰ اور یورپ سے جوڑے گا جسے ان ملکوں نے ابھی پچھلے سال شروع کیا ہے جب کہ چین کا یہ منصوبہ 80 فیصد مکمل ہو چکا ہے ۔
یورپ سے سے مزید