حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
خلاف قانون ایسے عمل دہرانا جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو، نقص امن کا خطرہ ہو، بہت سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلے، لوگوں کی جان ومال محفوظ نہ ہو، نوجوان نسل کو تباہ کرکے ان کی ترقی روکنے جیسے بداعمال پھیلائے جائیں، بھتے وصول کئے جائیں عام لوگوں کو ستایا جائے، ڈرا دھمکا کر لوگوں کو ساتھ ملا کر گینگ بنائے جائیں اور پھر مجرمانہ سرگرمیاں مسلسل جاری رکھی جائیں ۔ڈاکہ زنی، چوریاں اور ناحق قتل و غارت مچا کر مافیا بنا جائے کیونکہ ناحق اور ناجائز دولت آپ کو مضبوط کر دیتی ہے۔ حمیت ،لحاظ، شرم و حیا اور غیرب جب اڑ جائے تو انسان بے ضمیر، بے حس اور ہر لحاظ سے عاری ہو جاتا ہے۔ پھر جب ایسی بدخصلت اور بے غیرتی ایک انسان میں آجائے تو پھر جانیئے کہ اس شہر اور ملک کا اللہ حافظ ہے کیونکہ مافیا نے اپنے ساتھ ب کئی ڈان بھی چھوٹے بڑے ملانے ہیں جو کہ کافی سے زیادہ سیاستدان ، بیوروکریٹ، پولیس آفیسرز اور بڑے بڑے بزنس مین ہوتے ہیں تو بڑے بڑے مافیا اور ڈان جس قدر طاقتور ہونگے پھر اسی قدر ملک میں غنڈہ راج ہوگا۔ڈاکو، چوریوں اور بھتہ حاصل کرکے جو مافیا بنتے ہیں تو پھر وہ یہ پرچار کرتے ہیں کہ وہ خاندانی رئیس ہیں جبکہ خاندانی رئیس جینے کا یہ ڈھنگ اور روش نہیں اپناتے۔ اس کا جواب ان کے پاس یہ ہوتا ہے کہ ان کیساتھ کوئی زیادتی ہوئی تھی تو انہیں مجبوراً یہ زندگی اپنانا پڑی یا پھر کسی اپنے کا قتل ہوا تھاتو اس بدلے کی آگ میں انہیں غنڈہ بننا پڑا اور بھی کئی بہانے ہوتے ہیں یہ اپنی بے راہ روی کو معصومیت کے پردوں میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کچھ تو ہمدردی عام لوگوںکی ان کیساتھ رہے۔ جب یہ حد سے زیادہ ظالم ہو جائیںتو خرابیاں ہوتی ہیں۔ پاکستان جیسا ملک جو اپنے پائوںپر تاحال کھڑا نہ ہو سکا وہ ملک جسے معلوم نہیں کتنے مسائل، جھنجھٹ کا سامنا ہے۔ وہ کسی بھی فیلڈ میں مکمل ترقی کر سکا یا نہیں مگر جرائم، مافیا اور ڈان کا گڑھ ضرور بن گیا ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک میں ڈان، مافیا اور گینگسٹر پائے جاتے ہیں مگر ترقی یافتہ ممالک میں انہیں ملکی حالات پر اثرانداز نہیں ہونے دیتے ملک ترقی کیجانب رواں دواں رہتا ہے۔ مافیا سے چوری چھپے نمٹا جاتا ہے پولیس پوشیدہ طور پر ورک آئوٹ کرکے ان کی ظالمانہ سرگرمیوں کی بیخ کنی کرتی ہے انہیں طاقتور نہیں ہونے دیا جاتا اور یہ کبھی ملکی حالات اور سیاست پر اثرانداز نہیں ہوسکتے۔ اس کے برعکس پاکستانی مافیا کے حالات ملاحظہ کیجئے یہاں کراچی اور لاہور میں جس بھی مافیا کا ذکر چھیڑو تو اسکے ساتھ کئی ہاتھ ملوث ہوتے ہیں۔ ملکی حالات دگرگوں ہو جائیں تو ہر کوئی خود کو ڈان سمجھنے لگتا ہے۔ غریب سے غریب آدمی بھی بڑے بڑے ڈان کو دیکھ کر یہ سوچنے لگتا ہے کہ مجھے بھی چوریاں شروع کر دینا چاہئیں کیونکہ جب میں باعزت طریقے سے ٹھیلہ لگاتا تھا تو داداگیری کرنے والے ہر ہفتے مجھ سے بھتہ وصول کرنے پہنچ جاتے اور میری ہفتے بھر کی کمائی یوں آسانی سے لٹ جاتی۔ بہرحال مجھے اپنا کام بھی چلانا ہے، گھر بھی چلانا ہے تو چوری ڈاکے ہی ٹھیک ہیں ویسے تو مجھے شوٹر بننے کی آفر بھی آئی ہے مگر میں وہ کر ہی نہیں سکتا کہ ابھی میں تیار نہیں ہوں حالانکہ کرائے کے شوٹر بننے میں پیسے اور گھر بھی مافیا سے ملتا ہے اور ہو سکتا ہے شوٹر تو کیا میں چھوٹا موٹا ڈان بھی بن سکتا ہوں ب س ہمت جمع کرنا ہوگی۔مافیا اور داداگیری میں جو کچھ بھی کمائی ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس روش کو پھر سیاسی تنظیمیں اپنا لیتی ہیں بلکہ پولیس آفیسر سے لیکر کئی مذہبی اور مافیاز ایک ہی پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں کئی دہائیوں سے بڑے بڑے گینگسٹر اور مافیاز پنپ کر ڈان بن چکے ہیں مگر پولیس کے ہاتھ نہیں لگتے۔ پولیس کو چکمہ دے کر نکل جائے۔ دنیا بھر کے ممالک میں مافیا کو کچلنے کیلئے پولیس ہر دم الرٹ رہتی ہے۔ انٹرپول کے ذریعے مجرمان کو پکڑ کے سخت سے سخت سزا اور بھیانک جیلوں میں ڈالا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں خطرناک اور بااثر ترین جرم کے بادشاہوں کی پشت پناہی بڑے بڑے لوگ اور پولیس مل کر کرتی ہے۔ تبھی تو اسمگلر، مجرمان اور منشیات مافیا پرتعیش زندگی گزارتے ہیں۔ تبھی جرائم کی دنیا میں پاکستان خود کفیل ہوئے چلا جا رہا ہے۔ ڈان، مافیاز اور گینگسٹرز کی دشمنیاں اس قدرر بڑھ چکی ہیں کہ خاندان بھر کے چشم و چراغ گل ہو رہے ہیں۔ ڈان، مافیاز اور گینگسٹرز کی زندگی رعب و دبدبے والی، جہری قہری، ظالمانہ اورپرتعیش ہوتی ہے کہ ان سے مرعوب ہوکر ہر طبقہ فکر کے لوگ ان جیسی زندگی گزارنے کو خواہشمند رہتے ہیں۔ ان کے انفلوئنس میں آجاتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں پاکستان خوف کی آمجگاہ بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان اسلئے حاصل کیا تھا کہ وہاں امن و سکون ہو ، ناکہ اسلحہ، منشیات فروشی، قتل و غارب اور عام لوگوں کا جینا حرام ہو اور نوجوان نسل خوف میں پروان چڑھے جن کی منزل جانے کیا ہو، کہاں ہو؟۔