• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
اسرائیل نے مشرق وسطیٰ ہی نہیں پوری دنیا کے امن کے ساتھ جو کھلواڑ شروع کر رکھا ہے، اس کی کہیں تاریخ میںمثال نہیں ملتی۔ یہ کیسا مائنڈ سیٹ ہے، جس میں اتنی نفرت بھری ہوئی ہے کہ فلسطینی بچوں کے اعضا کاٹ کے خوش ہوتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے کئے گئے قتل عام پر اپنے ربی سے شاباش وصول کرتے ہیں اور وہ ربی انہیں کہتا ہے کہ تمہارے اس عمل پر تمہارا خدا تم سے بہت خوش ہے، تم نے دنیا سے شیطانیت کو ختم کیا ہے۔ نئی نسل کے یہودیوں کو بچپن سے بتایا گیا ہے کہ ہمارے جو دشمن ہیں، وہ دراصل ابھی تک مکمل انسان نہیں بنے بلکہ سب ہیومن ہیں،یعنی ابھی جانور ہیں۔ اس لئے انہیں مارنا عین ثواب ہے اور ان کے بچوں کو مارنا اس سے بھی بڑا ثواب کا کام ہے کیونکہ اسکا مطلب ہے کہ تم نے آنے والے کل میں ہمارے بننے والے دشمن کو آج ہی ختم کردیا۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ کاٹے گئے تاکہ اس میں پلنے والا شیطان دنیا میں نہ آسکے۔ نسل پرستی کا یہ انداز عجیب اور بہت ظالمانہ ہے لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو وہ تمام مذاہب، جو خود کو تو مکمل درست راہ پر گامزن محسوس کرتے ہیں جبکہ اپنے علاوہ دوسرے سبھی کو گمراہ اور شیطان کے پلڑے کے ہمنوا سمجھتے ہیں۔ میڈیا پرہمیشہ سے یہودیوں کی لابی کا کنٹرول دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس لئے جونہی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے توپھر حکمرانوں کو نیشنل انٹریسٹ کے حوالے سے اپنا وہی موقف دہرانا پڑتا ہے، جو اس سرمایہ داری نظام اور صیہونیت کی طرفداری کرتا ہو اور سچ کو چھپانا یا موڑ تروڑ کے پیش کرنا ہی ذہنوں کوکنٹرول میں رکھنے کا طریقہ ہے۔ آج اگر یہ یہودی اپنے مخالفین کو، خصوصی طور پر مسلمانوں کو، جس طرح سب ہیومن سمجھتے ہیں، اسی طرح دوسرے مذاہب کے لوگ بھی، جو خود کو تو سچا سمجھتے ہیں، وہ دوسروں کو نہ صرف گمراہی کا شکار قرار دیتے ہیں بلکہ جہنم کا پروانہ بھی ان کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں۔ اس لئے یہودی اس وقت اس سرمایہ داری نظام کی لوٹ کھسوٹ کا ہراول دستہ ہیں۔ وہ ایک طرف اپنی زمین کو قبضوں کے ذریعے بڑھا کے اپنی سرحدوں کا دائرہ وسیع تر کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف غریب ملکوں کو سر اٹھانے کا چانس نہیں دینا چاہتے۔ اسی لئے اب اس وقت انہوں نے غزہ کے بعد لبنان پھر یمن، ایران اور شام کو اپنے حملوں کی زد میں لے لیا ہے اور غزہ تو مکمل تباہ کرکے اپنی توسیع پسندی میں شامل کر لیا ہے۔ ابھی دو روز قبل انسانی لاشوں کے ٹرک غزہ سے انسانی جسم نکال کے کہیں اور لے جا رہے تھے، جہاں ان انسانی باڈیوں کو تلف کیا جائے گا۔ دراصل یہ باڈیاں غزہ کے جن علاقوں سے نکال کے تلف کرنے کے لئے لے جائی جارہی ہیں، وہاں غزہ میں اپنی نئی آبادیاں بسانا شروع کر دی ہیں۔ کنٹریکٹرز نئی تعمیرات کے لئے بلائے گئے ہیں اور ٹینڈر لئے جا رہے ہیں۔ اب لبنان کی باری ہے، مجھے حالیہ ایران کے180 میزائلوں کے حملے پر دکھ اس بات کا ہے کہ ایران نے ان میزائلوں کے حملے کو ہانیہ اور نصراللہ کی شہادت کا بدلہ قرار دیا ہے اور ایک چھیڑ خوانی کا جھٹکا لگایا ہے۔ چاہئے تو یہ تھاکہ وہ اسرائیلی مظالم کے خلاف بھرپور حملہ کرکے اسے اس کی توسیع پسندی کا جواب دیتا لیکن اب اس محض چھیڑ خوانی سے ایران پر بھی اسی طرح سے اسرائیل جوابی حملہ کر سکتا ہے جس طرح حماس کے حملے کے بعد غزہ پرکیا تھا۔ اس وقت امریکہ اور یورپ بھرپور طریقے سے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور مظالم کو مظالم کہنے کو تیار نہیں بلکہ اسے اسرائیل کا حق دفاع قرار دے رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت یہودیوں کو مسلمانوں سے لڑانا سرمایہ داری نظام اور نیو ورلڈ آرڈر کے عین مطابق ہے۔ ابھی چند برس پہلے تک افغانستان میں ایسا ہی کرکے آئے ہیں، مسلمانوں کو ہی آپس میں لڑاتے رہے ہیں اور مسلمان ،مسلمان کو مار کے جہادی کا ثواب کماتا رہا ہے۔ دراصل جب تک ترقی پذیر ممالک کے عوام اور حکمران اس بات کو نہیں سمجھیں گے کہ مذہب کے نام پر لڑائیاں دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی ایک چال ہے، جس کا مقصد اسلحے کا کاروبار بھی ہے اور دنیا میں امیر اور غریب کے فرق کو بڑھاوا دینا بھی ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں نہ صرف جنگوں کا ہوتے رہنا ناگزیر ہے بلکہ بڑے پیمانے پر غربت کو برقرار رکھنا بھی سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لئے ضروری ہے تاکہ دنیا کی دولت، طاقت اور وسائل کا کنٹرول اس مٹھی بھر طبقے کے ہاتھوں میں رہے۔
یورپ سے سے مزید