• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ سر جھکائے خاموشی سے بیٹھی اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی ،ایسا لگتا تھا جیسے سب کچھ ہار گئی۔ میں نے اس سے ڈرتے ڈرتے سوال کیا ۔کیا ہوا ہے، ایسے کیوں اداس بیٹھی ہو؟ اس نے ایک سرد آہ بھری اور کہنے لگی آج میں ہار کے آئی ہو ں ، مگر کس سے ؟ میں نے بے ساختہ کہا ۔’’اپنی قسمت سے، اپنی تعلیم سے ، اپنے فیصلے سے اور ان دو ٹکے کی گھریلو سازشوں سے جن کے بارے میں، میں مذاق اُڑاتی تھی کہ یہ گھر میں بیٹھنے والی عورتوں کو خوامخواہ کا ہوا بنا لیا ہے ٹی وی ڈراموں نے، ورنہ ایک گھر میں بیٹھنے والی عورت بھلا ایک پڑھی لکھی ، ملازمت پیشہ لڑکی کے خلاف کیا ایسی سازش کر سکتی ہے کہ وہ اسے گھر سے ہی نکال باہر کردے۔ یہ سب آ ج کل نہیں ہوتا اب زمانہ بدل گیا ہے۔

یہ سب صرف ڈراموں میں ہی ہوتا ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ میں ایک پر اعتماد، پڑھی لکھی، خوبصورت ہوں اوران سب سے بڑھ کر میرے شوہر مجھے سے بہت محبت کرتے ہیں ،میرا کوئی کیا بگاڑ لے گا اور کیوں بگاڑے گا۔ میں نہ بلا وجہ کسی کے کام میں ، نہ زندگی میں اور نہ ہی کسی کے گھر میں مداخلت کرتی ہوں پھر کوئی کیوں میری زندگی میں مداخلت کرے گا یا آگ لگائے گا۔

اور میں اور میرا شوہر دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ، ہم کلاس فیلو رہے ہیں، ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ،ہم کیوں کسی کی سازش کے جال میں پھنسیں گے۔ لیکن کیا پتہ تھا کہ، یہ ٹی وی ڈرامے ان ہی سچائیوں پر بنتے ہیں جو ایک عورت ہر روز اپنے گھر میں سہتی ہے۔ میں جو بڑی انٹلیکچوئل بنتی تھی میری اعلٰی تعلیم ، میری لاکھوں کی تنخواہ، میرا حسن سب گھر میں بیٹھی اس عورت کی ایک سازش کی مار تھا، جس کو میں بے ضرر سمجھتی تھی۔ 

آج میرا شوہر جو میرا دم بھرتا تھا میری طرف دیکھنے کا روادار نہیں ، میری ننھی سی بیٹی جسے وہ گود میں اُٹھائے پھرتا تھا، آ ج اس کی طرف دیکھنے کو تیار نہیں ۔ مجھے یہ کہہ کرگھر سے نکال باہر کیا کہ مجھے تمھاری ضرورت نہیں ۔‘‘میں ہکا بکا اس کی داستان سن رہی اور سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یہ ہو ا کیا ہے؟ تفصیل سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک ان کی زندگی میں اس کی ساس اور نند کی انٹری ہوئی اور ان سے یہ برداشت نہ ہو سکا کہ دونوں میاں بیوی ہنستے کھلکھلاتے زندگی گزار رہے ہیں ۔ مل کر زندگی کی گاڑی بھی چلا رہے ہیں دونوں مل جل کر گھر کے کام کاج بھی کررہےہیں ، زندگی میں کوئی چخ چخ بھی نہیں۔

بس یہیں سے وہ مشہور زمانہ گھریلو سازشیں جن سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے ان کا آغاز ہوا ۔ پہلے یہ اعتراض کر کے بیٹے کو غیرت دلائی گئی کہ، نوکری سے آ کر جورو کا ہاتھ بٹاتا ہے ،پھر کھانے میں اعتراضات شروع ہوئے اور بیٹے کی قسمت پر افسوس کا اظہار کیا گیا جسے ڈھنگ کا کھانا بھی نصیب نہیں ہورہا کتنا کمزور ہو گیا ہے وہ ، پھر بیوی کے پھوہڑ پن پر اس کے کانوں میں زہر انڈیلا گیا۔ اور اس کو اتنا زچ کیا گیا ہے کہ ایک دن وہ بیوی سے لڑ پڑا جب بحث عروج پر پہنچی تو اس بحث میں ساس کی انٹری ہوئی ، جس پر بہو بھی سیخ پا ہوئی اور ساس سے اونچی آواز میں بول پڑی کہ آپ بیچ میں نہ آئیں، یہ سن کر ساس کو غش آنے لگے، جس پر بیٹے کا بہو پر ہاتھ اُٹھ گیا اور اس نے بیوی کو میکے دفع ہونے کا کہہ دیا۔ 

اور جب وہ اپنا گھر چھوڑ کر جانے پر راضی نہ ہوئی تو اسے زبردستی میکے چھوڑ گیا، اور ماں باپ کو بھی ان کی تربیت پر سو باتیں سنا دیں ۔ اب گھر واپسی کی یہ شرط رکھی گئی کہ اگر میری ماں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگے اور آئندہ منہ بند کر کے رہنا منظور ہو تو واپس آئے گی، ورنہ نہیں ، کیوںکہ اسے دیکھ کر میری ماں کو ڈپریشن ہوتا ہے اور میں اپنی ماں کو دکھ نہیں دے سکتا ،جس پر ماں باپ نے بیٹی کو مجبور کیا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر ان سے معافی مانگے اور آئندہ بدتمیزی نہ کرنے کا وعدہ کرلے۔

یہ اس پڑھی لکھی، قابل، سمجھدار ،اعلیٰ عہدے پر فائز اور سلجھی ہوئی لڑکی کے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا کہ غلطی نہ ہونے پر بھی اس کو ذلیل کیا گیا اور پھر معافی مانگنے پر مجبور بھی کیا گیا ۔ اس کی خودداری اور عزت نفس کو اس طرح کچلا گیا کہ آئندہ وہ سر ہی نہ اٹھا سکے۔ میں یہ سب سن کر اس سوچ میں گم تھی کہ آج بھی عورت کا یہ حال ہے۔ آخر کب تک اس طرح کی کہانیاں دہرائی جاتی رہیں گی ۔ دنیا اس وقت کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن برصغیر پاک و ہند اور بنگلا دیش میں ہم ساس بہو اور نند کی سازشوں سے نہیں نکل پا رہے۔ 

اچھی خاصی سلجھی ہوئی لڑکیوں کو انہی سازشوں کی وجہ سے سسرال سے متنفر کیا جاتا ہے ،جس کے نتیجے میں وہ یا تو گھر الگ کرتی ہیں یا سائیکو ہوجاتی ہیں ، یا خود کشی کر لیتی ہیں یا طلاق کی نوبت آجاتی ہے یا وہ بھی اسی ماحول کا حصہ بن کر جوابی سازشیں کرنے لگتی ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو 80 فیصد گھروں میں بہویں مظلوم ہوتی ہیں اور سسرال کے ظلم کا شکار ہوکر ان سے نفرت کرنے لگتی ہیں جب کہ بیس فیصد گھروں میں ساس نندیں مظلوم ہوتی ہیں اور بہویں ظالم ہوتی ہیں۔ 

یقین نہیں آتا کہ اچھی خاصی ہنستی کھیلتی لڑکیاں دنوں میں مرجھا جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں کیوں کہ اب بھی اگر گھر اُجڑے تو قصوروار عورت ہی ٹہرائی جاتی ہے، اسی لئے لڑکی کے والدین کی یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ بھلے بیٹی جوتے ، تھپڑ کھا لے لیکن سسرال ہی میں رہے ،چاہے وہ ظلم سہتے سہتے قبر میں چلی جائے۔ ہمیں اب معاشرے کی یہ سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔

ہماری بچیاں بھی گوشت پوست کی انسان ہیں جنہیں تھپڑ اور لاتیں کھانے سے تکلیف بھی ہوتی ہے اور ان کی عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے۔ وہ بچی جسے اپنے گھر میں نازوں سے پالا گیا ہو اس کے جسم کے نیل اور مار کھانے کے نشان دیکھ کر والدین آنکھیں چرا لیتے ہیں اور صبر سے اسے گھر بسا نےکی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے ؟ زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا لیکن ہم ابھی تک( جبکہ لڑکیاں جہاز تک اڑا رہی ہیں) انہی سوچوں میں پھنسے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ 

لڑکی الگ گھر کا مطالبہ کرے جو کہ اس کا بنیادی اور شرعی حق ہے تو سیدھا سیدھا اس کی تربیت اور کردار پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں ۔ ساتھ رہے تو زندگی دشوار ۔ بچے ہوجائیں تو بچوں کی خاطر کمپرومائز کرے۔ لڑکی کے والدین یہ سوچ لیں کہ بیٹی کا گھر تو بسا نا ہے لیکن اس پر ظلم اور جبر نہیں ہونے دینا اور ایسا کرنے والوں کو اچھا سبق سکھانا ہے ہی کچھ سدھار ہوسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں طلاق کے خوف سے بیٹی کے والدین منہ سی لیتے ہیں ، جس سے ظالموں کو اور شہہ ملتی ہے۔ 

اس وقت سوشل میڈیا کی بدولت پے در پے ایسے کیسز سامنے آ رہے ہیں ،جس میں اچھی خاصی پڑھی لکھی اور باشعور اور اچھے گھرانوں کی لڑکیوں کے ساتھ وہ وہ ظلم ہوئے ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ آج کےجدید دور میں بھی ایسا ہورہا ہے ۔خدارا اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ شعور اور اعتماد بھی دیں کہ تمہاری شادی تو ہم کر رہے ہیں لیکن اگر تمہارے ساتھ کوئی زیادتی یا ظلم کیا جائے تو خاموش نہیں رہنا ہم تمہارے پیچھے کھڑے ہیں، اس گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ بیٹیوں سے اپنے پالنے پوسنے کا خراج نہ وصول کریں یہ کہہ کر کہ بس اب رخصت ہو کر جارہی ہو تو اس گھر سے جنازہ ہی نکلے۔ 

ایسا ہر گز نہ کریں ہاں صبر، برداشت ، حسن سلوک اور اخلاق کا سبق ضرور پڑھائیں ،کہ شوہر کے گھر والوں سے حسن سلوک کا مظاہرہ کرو، شادی کے اوائل دنوں میں خاص کر اس کی اشد ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ نئے رشتے بنتے ہیں تو ان کو سمجھنے کے لئے کچھ وقت چاہیے ہوتا ہے۔ اس لئے صبر اور دانشمندی سے اس صورتحال کا سامنا کیا جائے لیکن جہاں انسانیت اور برداشت کی کمی ہو اور سمجھنے والے نہ ہوں وہاں اپنا وقت اور اپنی عمر اور اپنی انرجی ضائع کرنا فضول ہے۔ تمام والدین اپنے بیٹے اور بیٹیوں کی تربیت میں انسانیت ، برداشت، اور رواداری کا سبق ضرور پڑھائیں ، تاکہ دوسرے کی بیٹی آپ کے گھر میں خوش رہ سکے۔ 

ہم نے ایسے بھی گھرانے دیکھے ہیں جہاں بہوؤں کو واقعی بیٹیوں کی طرح رکھا جاتا ہے اور ان کو ویسی ہی عزت اور محبت دی جاتی ہے جیسی ان کومیکے میں ملتی تھی ۔ جواب میں بہویں بھی اپنا فرض بخوبی نبھاتی ہیں اور خوش و خرم ہیں لیکن یہ تعداد آ ٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس قسم کی پریکٹس کو عام کرنا ضروری ہے، تاکہ لڑکیاں شادی کے نام سے خوفزدہ نہ ہوں اور لڑکے بھی یہ سمجھیں کہ شادی صرف جی کا جنجال نہیں ہے بلکہ ایک خوبصورت بندھن اور ذمہ داری ہے۔ اللہ ہمارے معاشرے میں دین کا شعور اور فہم عطا کرے ،تاکہ ہم سب اپنے حقوق وفرائض کو پہچان کر ایک دوسرے کے لیے آ سانی پیدا کرسکیں۔