عمران احمد سلفی
ارشادِ ربّانی ہے: اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو، بےشک ،بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو اور (اِن تمام معاملات میں) اللہ سے ڈرو،بےشک اللہ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔(سورۃ الحجرات، ۱۲) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جانتے ہو غیبت کیا ہے؟صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، اللہ اوراس کے رسول ﷺہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
آپ ﷺنے فرمایا: غیبت یہ ہے کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا اس انداز میں ذکر کرے ،جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ اگر میرے بھائی میں واقعی وہ برائی موجود ہو،تب بھی یہ غیبت ہے؟آپﷺ نے فرمایا: اگر اس میں وہ برائی موجود ہے، تب تو تم اس برائی کا ذکر کرکے غیبت کے مرتکب ہوگے اور اگر اس میں وہ عیب موجود نہ ہو، تو تم بہتان کا ارتکاب کروگے۔(ابوداؤد، ترمذی، مجمع الفوائد)
حضرت ابوسعیدؓ اور حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غیبت زنا سے زیادہ سخت (گناہ) ہے ۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیاکہ یارسول اللہﷺ! غیبت زنا سے زیادہ سخت (گناہ) کس طرح ہے؟تو حضوراکرمﷺ نے فرمایا :آدمی زنا کرتا ہے پھر توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماکر اسے بخش دیتا ہے، لیکن غیبت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک نہیں بخشے گا ،جب تک اسے وہ شخص نہ معاف کردے، جس کی اس نے غیبت کی ہے۔( مشکوٰۃ باب حفظ اللسان) حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا،یا رسول اللہﷺ! کامیابی کیا ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا، "اپنی زبان روک لو اور چاہیے کہ تمہارا گھر تم پر کشادہ ہو، یعنی اپنی زبان کو کنٹرول کرنے کے سبب تمہارے تعلقات اپنے گھر والوں سے اچھے ہو جائیں اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔(ترمذی )
آج ہمارے معاشرے میں متعدد اقسام کی بیماریاں سرایت کرگئی ہیں،ان بیماریوں میں سے ایک اہم غیبت ہے ۔ یہ ایسی بیماری ہے جو عوام ہی نہیں، بلکہ سماج کے بااثر ذی شعور طبقے کو بھی لاحق ہوگئی ہے اور اس با ت کا انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ان سے کوئی مذموم حرکت سرزد ہورہی ہے۔ غیبت ایک بھیانک جرم ہے ،کیونکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی کے عیوب کی تشہیر کرکے اسے بدنام کیا جائے ،حالانکہ یہ سراسر حرام ہے،لیکن اگر کسی شخص میں کوئی ایسی برائی موجود ہو جس سے دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں لوگوں کو اس شخص کی برائی سے مطلع کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔
مثلاً کسی نے اپنے گھر سے کسی خانساماں یا ڈرائیور کو چوری یا غیر اخلاقی سرگرمیوں کی وجہ سے نکال دیا ہے اور اسے یہ پتا چل چکا ہے کہ اس خانساماں یا ڈرائیور کو اس کے کسی پڑوسی یا رشتے دار نے اپنے پاس ملازم رکھ لیا ہے تو ایسی صورت میں اس پر اپنے پڑوسی یا رشتے دار کو اس کی عادت سے مطلع کرنا ضروری ہے۔ یہاں جس غیبت کی ممانعت کی بات ہو رہی ہے ،وہ کسی مسلمان کی ذاتی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی تشہر کر کے اس کی آبروریزی کرنا ہے۔جسے اللہ تعالیٰ نے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیت میں موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں غیبت کو مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر اس فعل کی کراہیت کا احساس دلایاہے ،مردار کا گوشت کھانا بجائے خود نفرت کے قابل ہے، اور وہ گوشت بھی کسی جانور کا نہیں ،بلکہ انسان کا ہو اور انسان بھی کوئی اور نہیں خوداپنا بھائی ہو۔ قرآن کریم نے غیبت سے منع کیا اور ہمارے سامنے ایک ایسی چیز کا تصور پیش کیا جس کے تصور سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسے بھائی کا تصور پیش کیا جو اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے۔غیبت کے بے شمار اسباب ہو سکتے ہیں، غصے کی حالت میں ایک انسان دوسرے انسان کی غیبت کرتا ہے۔
لوگوں کی دیکھا دیکھی اور دوستوں کی حمایت میں غیبت کی جاتی ہے۔ انسان کو خطرہ ہو کہ کوئی دوسرا آدمی میری برائی بیان کرے گا، تو اسے لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لئے اس کی غیبت کی جاتی ہے۔ کسی جرم میں دوسرے کو شامل کر لینا، حالانکہ وہ شامل نہ تھا، یہ بھی غیبت کی ایک صورت ہے۔
بہر حال ہر شخص کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس حرام فعل سے توبہ واستغفار کرتے ہوئے رک جائے ،پھر اگر وہ آدمی موجود ہو جس کی غیبت کی گئی ہے تو اس سے معافی مانگے، ورنہ اس کے حق میں کثرت سے دعائے مغفرت کرے۔