مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
حضرت عقبہ بن عامرؓ مشہور صحابی ہیں، کئی احادیث آپ سے منقول ہیں، ترمذی شریف میں آپؓ سے ایک حدیث منقول ہے، اس میں آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ: میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھےبتایئے کہ دنیا اور آخرت میں نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے ان کے سوال کے جواب میں تین چیزوں کی نصیحت فرمائی، تین باتوں کو نجات کا سبب بتایا: ۱:اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔۲: ۔تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے، یعنی اپنے گھر میں رہا کرو۔ ۳: ۔اپنے گناہوں پر رویا کرو۔
پہلی نصیحت: زبان کو قابو میں رکھنا
نبی کریمﷺ نے پہلی چیز جسے نجات کا سبب بتایا ہے، وہ ہے :’’اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھنا۔‘‘انسانی اعضاء میں سے زبان بڑی اہمیت رکھتی ہے، اسے علماء نے دودھاری تلوار قراردیا ہے، یہ حق میں بھی چلتی ہے اور باطل میں بھی۔ انسان کی زبان زندوں پر بھی چلتی ہے اور کبھی مُردوں کو بھی نہیں بخشتی۔ اس لیے انسان جو بول اپنی زبان سے نکالے، سوچ سمجھ کر نکالے، ساتھ ساتھ اپنی گفتگو کے بارے میں یہ سوچ بھی رکھے کہ میرا کہا ہوا سب کچھ لکھا جارہا ہے ،مجھے اپنے ہر ہر بول کا حساب دینا ہوگا،جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، کیا میں اس کا حساب دے سکتا ہوں؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ انسان کی زبان سے کوئی لفظ ایسا نہیں نکلتا جسے لکھنے کے لیے حاضر باش فرشتہ نگران موجود نہ ہو‘‘، اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے اس کے لیے مقرر کر رکھے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی گفتگو میں، ہنسی مذاق میں بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے، زبان سے غلط بول نکل جائے توبندہ اللہ کے حضور صدقِ دل سے معافی مانگے اور آئندہ کے لیے اپنی زبان کو فضولیات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے۔
اگر ہم غور کریں تو ہمیں اکثر لڑائی ،جھگڑوں اور فسادات کی بنیاد اور سبب انسانی زبان کی بے احتیاطی اور بے باکی نظر آئے گی۔ ہماری زبانیں آج بڑی بے احتیاط ہوچکی ہیں، جو کچھ ہماری زبانوں پر آتا ہے، ہم بولتے چلے جاتے ہیں، سوچتے بھی نہیں کہ ہماری یہ باتیں برائیوں کے پلڑے کو بھاری کرنے کا سبب بن رہی ہیں، ان پر قیامت میں ہماری سخت پکڑ ہوسکتی ہے اور ہماری غیر محتاط باتیں ہمیں دوزخ کی آگ میں دھکیل سکتی ہیں۔
امام احمد بن حنبلؒ اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں علیل تھے،بیمار تھے، اور عام طور پر بیماری میں انسان کراہتا ہے، کراہنے کی آواز منہ سے نکلتی ہے، جسے ہم آہ آہ کرنا کہتے ہیں، تو آپ کراہ رہے تھے، حضرت طاؤسؒ بزرگ بھی ہیں اور محدّث بھی ، وہ اُن کے قریب تشریف فرما تھے، انہوں نے امام احمد بن حنبلؒ سے کہا: فرشتے انسان کی زبان سے نکلا ہوا ہر کلام ہر لفظ لکھ لیتے، محفوظ کرلیتے ہیں، حتیٰ کہ مریض کا کراہنا بھی لکھ لیا جاتا ہے، امام احمد بن حنبلؒ نے جب یہ بات سنی تو کراہنا بھی ختم کردیا، یہاں تک کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔‘‘
نبی کریمﷺ سیّد الانبیاء والمرسلین ہیں، قیامت تک کے لیے آخری پیغمبر ہیں، رسول اللہﷺ کواس دنیا میں سب سے زیادہ بولنے کی حاجت وضرورت تھی، اس لیے کہ آپﷺ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لیے مقتدیٰ اور پیشوا تھے، آپ ﷺنے ساری انسانیت کو ہر لحاظ سے ہدایات دینی تھیں، اور اس ضرورت کے لیےآپ ﷺ بولنے میں کوئی کمی بھی نہیں فرماتے تھے، آپ ﷺ نے ضرورت کی ہر چھوٹی بڑی بات بتائی اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلق رہنمائی فراہم کی، اس کے باوجودآپ ﷺ کو دیکھنے والے صحابہ کرام ؓارشاد فرماتے ہیں: ’’نبی کریم ﷺ بہت زیادہ خاموش رہتے ،آپ ﷺ صرف وہی بات فرماتے تھے جس پر ثواب کی امید ہوتی تھی، اس سے زبان کی احتیاط کا اندازہ لگائیں۔
زبان کے ذریعے ہم سے بے شمار گناہ سرزد ہوتے ہیں، ان گناہوں میں غیبت، چغل خوری، گالم گلوچ، دوسرے مسلمانوں کو ایذاء رسانی شامل ہے، اس لیے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے: حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، یعنی مسلمان کی زبان غیبت، چغلی، بدگوئی اور فحش باتوں سے محفوظ رہے۔
ابوسلیمان داؤد الطائی ،امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں سے ہیں، یہ ایک مرتبہ کسی جگہ سے گزررہے تھے، یک دم وہاں بے ہوش ہو کر گرپڑے، انہیں اُٹھاکران کے گھر لے جایاگیا،جب بے ہوشی سے افاقہ ہوا تو پوچھا گیا کہ اس جگہ آپ پر بے ہوشی کیوں طاری ہوئی اور آپ کیوں گرپڑے تھے؟جواب میں انہوں نے کہا: جب میں اس جگہ پہنچا تو مجھے یاد آیا کہ اس مقام پر ایک مرتبہ کسی کی غیبت ہوگئی تھی، اور مجھے وہاں پہنچ کر یہ احساس پیدا ہوا کہ کل قیامت کے دن اللہ کے سامنے مجھ سے اس بارے میں مطالبہ ہوا، حساب کتاب کیا گیا، مجھ سے پوچھا گیا تو میں کیا جواب دوں گا؟ اس محاسبے اور اللہ کے سامنے پیشی کے خوف نے مجھے بے ہوش کردیا۔
دوسری نصیحت: اپنے گھر میں رہنا
سرکارِ دوعالمﷺ نے دوسری نصیحت یہ فرمائی کہ تمہارے گھر میں تمہارے لیے گنجائش ہونی چاہیے، تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے، یعنی بری مجلسوں اور برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کی بجائے یکسوئی کے ساتھ اپنے گھر میں رہا کرو، اور اپنے گھر میں رہنے کو اپنے لیے غنیمت جانو، اس لیے کہ یکسوئی کے ساتھ گھر میں رہنا، بہت سارے فتنوں، فسادات اور برائیوں سے نجات پانے کا ذریعہ اور سبب ہے۔
جب انسان کا گھر سے باہر کوئی دینی یا دنیاوی کام نہ ہو، کوئی ضرورت اور حاجت نہ ہو تو اب بلاضرورت گھر سے باہر رہنا، بلاضرورت گھومتے پھرتے رہنا، یہ شریعت میں پسندیدہ عمل نہیں ہے، البتہ کسی کے جنازے میں شریک ہونا، عیادت کے لیے جانا، دینی محافل مجالس میں شریک ہونا، یہ چیزیں انسان کے لیے مفید اور باعث اجر وثواب ہیں، مطلقاً بلاکسی ضرورت اور حاجت کے گھومنا پھرنا اس کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔
حضرت عثمان بن مظعونؓ جلیل القدر صحابی ہیں، ان کا یہ اعزاز ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی نعش مبارک کو بوسہ دیا تھا۔ انہوں نے نبی کریم ﷺسے چند سوالات کیے، ان سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا، اے اللہ کے رسولﷺ! ’’ہمیں سیر و سیاحت کی اجازت عنایت فرمائیے۔ گھومنے پھرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ نبی کریم ﷺنے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’میری امت کے لیے سیر وسیاحت یہی ہے کہ: اللہ کے راستے میں جہاد کیا جائے۔‘‘
اس حدیث میں آپ ﷺ نے بغیر کسی منفعت کے سیر وسیاحت کرنے کی اجازت عنایت نہیں فرمائی، بلکہ اس سے منع فرمایا، کیونکہ زمین پر گھومنا پھرنا اور دور دراز کا سفر اختیار کرنا جہاد فی سبیل اللہ میں مطلوب و محمود ہے۔محض سیر و سیاحت کی خاطر خواہ مخواہ دنیا کے چکر کاٹنا، جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں، عقلمندی کی بات نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی اُخروی منفعت و بھلائی حاصل ہوتی ہے۔
بلاضرورت گھر سے باہر رہنے اور گھومنے پھرنے سے بہت سارے گناہوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، خاص کر فتنے کے زمانے میں گھر میں رہنا انسان کے لیے فتنوں اور پریشانیوں سے بچاؤ کی بہترین تدبیر ہے۔ فضول کی محافل اور ان میں دوسروں کی غیبت اور تبصروں میں مشغول ہونا اپنی زندگی کے قیمتی وقت کو ضائع کرنا ہے۔
تیسری نصیحت: اپنی خطاؤں اور گناہوں پر رونا
نبی کریمﷺ نے تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ:اپنی خطاؤں، اپنے گناہوں اور نافرمانیوں پر اللہ کے حضور شرمسار ہوکر گڑگڑاؤ، اشک بہایاکرو، رویا کرو۔احساسِ ندامت اور خوفِ خدا میں بہنے والے آنسواللہ تعالیٰ کو بڑے محبوب ہیں۔ مومن آدمی جتنا اشکِ ندامت گراتا ہے، اتناہی اللہ کے ہاں محبوب بنتا چلا جاتا ہے۔
تفسیر کبیر میں امام رازیؒ اور تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسیؒ نے یہ حدیث قدسی نقل کی ہے، یعنی اللہ رب العالمین کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ: گناہ گاروں کا رونا، احساسِ گناہ میں آنسو بہانا، اللہ کے سامنے عاجزی کرنا، یہ اللہ تعالیٰ کو تسبیح خوانوں کی آواز سے زیادہ پسندیدہ ہے، اس لیے ہمیں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے پروردگار کے سامنے اپنی خطاؤں پر رویا کرو۔
حضرت کہمس بن حسن قیسیؒ بصرہ میں ایک بڑے پایہ کے بزرگ گزرے ہیں، ان کے بارے میں کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک معمولی غلطی پر چالیس سال تک آنسو بہاتے رہے۔ ایک دن یہ بیٹھے ہوئے ایک دوسرے بزرگ ابوسلمہؒ کے سامنے اپنے گناہوں کا شکوہ کرنے لگے، اور کہنے لگے: میں نے ایک ایسا گناہ کیا ہے جس پر چالیس سال سے رو رہا ہوں۔
ابوسلمہؒ نے یہ بات سنی تو حیران ہوئے اور پوچھا: ایسا کون سا گناہ سرزد ہوا ہے؟ وہ کہنے لگے: ایک دن میرے بھائی مجھ سے ملنے آئے، میں نے ایک دینار کی مچھلی خریدی، چناںچہ میرے بھائی نے وہ مچھلی کھائی، میں نے اُٹھ کر اپنے پڑوسی کی دیوار سے مٹی کا ایک ٹکڑا اُٹھالیا، تاکہ وہ اس سے ہاتھ پونچھ لے ، صاف کرلے۔ اس مٹی کے ٹکڑے کے اُٹھانے پر میں چالیس سال سے رو رہا ہوں، کیوں کہ وہ ٹکڑا میں نے اپنے پڑوسی کی اجازت اور اس کے علم میں لائے بغیر اُٹھالیا تھا۔
اللہ اکبر! کیسا احساس اور کیسا خدا کا خوف ان کے دلوں میں رچا بسا تھا، اور آخرت کا محاسبہ ہر وقت ان کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا، چڑھتے سورج کی طرح حساب کتاب اور پوچھ گچھ پر یقین واعتقاد تھا۔ حضرت ثابت بنانیؒ تابعی ہیں، ائمۂ حدیث میں سے ہیں، اللہ کے خوف اور خشیت سے بہت کثرت کے ساتھ رویا کرتے تھے، یہاں تک کہ ان کی آنکھیں دکھنے لگیں، طبیب نے کہاکہ ایک بات کاوعدہ کرلو، آنکھ اچھی ہوجائے گی، اور وہ بات یہ ہے کہ رویا نہ کرو۔ حضرت ثابت بنانیؒ نے طبیب کی یہ بات سنی تو فرمایا: اس آنکھ میں کوئی خوبی ہی نہیں، اگر وہ روئے نہیں، وہ آنکھ ہی کیا جو اللہ کے خوف سے نہ روئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔