تحریر: وقار ملک…کوونٹری شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا سربراہی اجلاس 15اکتوبر سے اسلام آباد میں ہو رہا ہے جس کے لیے حکومت بڑی تندہی کے ساتھ تیاریوں میں مشغول ہے تاکہ وہ اہداف حاصل کئے جا سکیں جس کی توقعات ہیں۔ حکومت جس انداز میں ملک کی ترقی خوشحالی کے لیے تگو دو کر رہی ہے ان کے ساتھ یکجا ہوں تاکہ ملک کو مشکلات کے بھنور سے باہر نکالا جا سکے۔ اس اہم اجلاس میں چین، روس اور بھارت سمیت دیگر ممالک کے سربراہان اور نمائندے شریک ہوں گے۔ یہ ایک اہم اجلاس ہے، خطے میں موجودہ حالات کے پیش نظر مختلف ممالک کے سربراہان یا نمائندگان کی پاکستان آمد ایک اہم پیش رفت ہے پاکستان اس شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ دشمن کو پاکستان میں معاشی استحکام ہضم نہیں ہو رہا، دشمن کو پاکستان اور چین کے مضبوط تعلقات ہضم نہیں ہو رہے، دشمن کو تو سی پیک تکلیف پہنچا رہا ہے بین القوامی طاقتیں چاہنا پاکستان کے بڑھتے تعلقات کو نفرت سے دیکھتے ہیں ۔ پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی جڑیں تاریخی اور جغرافیائی حقائق میں پھیلی ہوئی ہیں۔ دفاعی شعبے میں بھی پاکستان اور چین کے تعلقات انتہائی گہرے ہیں۔ دونوں ممالک نے مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں اور پاکستان کی فوجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چین نے پاکستان کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی کی ہے۔ اس کے علاوہ، چین نے پاکستان کو جدید ترین جنگی طیارے اور آبدوزیں فراہم کی ہیں جو پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ ان تعلقات کی اہمیت نہ صرف پاکستان اور چین کے لیے بلکہ پورے خطے کے استحکام اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔پاکستان ترقی کرے ملک میں خوشحالی آئے گی بے روزگاری ختم ہو گی پی ٹی آئی کی قیادت کو اس معاملہ میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ وہ اودھم مچانے والی سیاست سے ملک اور عوام کی کیا خدمت کر رہی ہے۔ یقیناً حکومتی انتظامی مشینری ایسے کسی احتجاج کی اجازت نہیں دےگی جس سے بیرونی دنیا میں پاکستان کا تشخص خراب ہوتا ہو۔