• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عصرِ حاضر میں مُطالعہ سیرتؐ کی ضرورت و اہمیت

مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمی

رسول رحمت، سید الاولین والآخرین امام الانبیاء و المرسلین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کی ذات گرامی ایک ایسی کامل و اکمل اور عظیم ترین شخصیت ہے کہ آپ ﷺ کی جامعیت و کاملیت اور عالمگیریت نے کائنات کے ہرذرے، ہرگوشے اور ہر شعبۂ حیات کو متاثر کیا، عبادات ہو یا معاملات، اخلاقیات ہو یا معاشرت، عدالت ہو یا سیاست، ریاستی احکامات ہوں یا سفارتی تعلقات، جنگی تدابیر ہوں یا گھریلو مسائل، تمام میں رسولِ مہربان ﷺ کی ذات والا صفات کامل و اکمل نمونےکے طور پر سامنے آتی ہے، رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ حیاتِ انسانی کے تمام گوشوں پر محیط دکھائی دیتی ہے عہد رسالت سے قبل حیات طیبہ میں آپﷺ کا اسوۂ حسنہ ایک امانت دار تاجر، بہترین شوہر، اچھا دوست، یتیموں کا در یتیم، بیواؤں اور مساکین کا غم خوار اور امانت و صداقت کے علمبردار نظر آتا ہے تو وہیں بعثت نبوت کے بعد ایک عظیم الشان داعی، غزوات اور سرایا میں ایک زبردست کمانڈر وسپہ سالار، ریاست مدینہ کا مایہ ناز سربراہ،ایک کامیاب جج، ایک کامیاب معلم، ایک کامیاب رہبر، ایک کامیاب سیاسی قائد کی ذات گرامی دکھائی دیتی ہے ۔

سیرتِ نبویؐ ۔اسلام کا دائمی معجزہ

یہ اس لیے کہ سیرت نبوی اسلام کا دائمی معجزہ اور اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہے کہ ہر نوع اور ہر آن تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کے ہمرکاب رہتی ہے، ہر دور اور ہر زمانے اور ہر علاقے میں ہر ہر طریقےسے رُشد وہدایت کا مینارۂ نور بن کر بھٹکی ہوئی انسانیت کو نشانِ منزل ہی نہیں بلکہ منزلِ دوام عطا کرتی ہے

کیا یہ سیرت نبویؐ کا معجزہ نہیں ہے کہ آج تک دنیا نے آپ ﷺکی ذات بابرکات کو جس قدر قابل اعتناء ولائق اہتمام سمجھا اور جس خوبی اور حوصلہ و نیاز مندی کے ساتھ سیرت طیبہ کے ہر زاویے کو سنوارا، اس اعزاز کا عُشرِ عَشیر بھی کسی کے حصے میں نہیں آیا، کیا یہ سیرت نبوی کا اعجاز نہیں ہے کہ آپ ﷺکی زبان کا ایک ایک حرف، حرکات وسکنات کی ایک ایک ادا، اور آپﷺ کی جلوت وخلوت کے ایک ایک خط وخال کا عکس آج بھی موجود ہے اور آپﷺ کی حیاتِ طیبہ کی ایک ایک کیفیت کتب سیرت کے اوراق میں بالتفصیل محفوظ ومامون ہے۔

سیرت نبوی ﷺ۔ قرآن کریم کی عملی توضیح

یہ اس لیے بھی کہ رسول اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ قرآن کریم کی عملی تفسیر وتوضیح ہے ۔قرآن اگر متن ہے تو سیرت اس کی تشریح، قرآن علم ہے تو سیرت اس کی عملی تطبیق، قرآن اور اہل ایمان کے سینوں میں محفوظ ہے تو سیرت اس زندہ وجاوید پیکر جمیل کا نام ہے جس نے مکے کی گلیوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے توحید کے نغمے سنائے اور مدینہ میں سلطنت مدینہ کی بنیاد رکھی جس نے اہل دنیا کو ایک منفرد طرز حکمرانی سے روشناس کروایا، یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس طرح بیان کیاتھا کہ ’’کان خلقہ القرآن‘‘ کہ آپﷺ چلتے پھرتے قرآن ہیں۔ ان ہی وجوہات کے سبب خالقِ کائنات نے رسول اکرم ﷺ کو تاقیام قیامت آئیڈیل اور بہترین اُسوہ بناکر امت کے سامنے پیش کیا ۔

ارشاد باری ہے: درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول ﷺ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخرت کا امیدوار ہو اورکثرت سے اللہ کو یاد کرے۔(سورۃ الاحزاب 21)

رسول اکرم ﷺ کی اتباع اور اطاعت کو دراصل اپنی خوشنودی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ قرار دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا۔(سورۂ آل عمران 31) اور جو شخص رسولﷺ کی اطاعت کرے گا ،بےشک اس نے اللہ کی اطاعت کی(سورۃ النساء81)

لیکن مقام افسوس کہ آج ہم جس طرح مطالعہ سیرت سے غفلت برت رہے ہیں اور اس کے پیغام کو فراموش کررہے ہیں، وہ شاید اس دور کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے، ہمیں پتا ہی نہیں کہ رسول اکرمﷺ کے اخلاق و عادات کیا تھے؟ آپﷺ نے ازواج مطہراتؓ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟صحابۂ کرامؓ کے مابین رسولِ اکرمﷺ کا کیا معاملہ تھا؟ کفار اور منافقین سے رسول اللہ ﷺ کا کیا رویہ تھا؟ ریاست مدینہ میں رسولِ اکرم ﷺ نے کیسی حکمرانی کی تھی؟

آپ ﷺ کی رحمت ورافت، محنت وشفقت، خشیت وانابت، شجاعت و امانت، صداقت وعدالت، جود وسخا، فراست ومتانت، ایثار وقربانی، احساس ذمہ داری، حلم و تواضع، صبر وتوکل، نیز گھریلو زندگی میں بہترین ساتھی، شفیق سردار، مساکین کے سرپرست، اسی طرح قومی وملی زندگی میں عدل و انصاف، فوجوں کی کمانڈری، انتظامات حکومت، رعایا پروری، سیاسی سوجھ بوجھ، دوستوں کی دل داری، دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک وہ عظیم اخلاق و کمالات کہ جس کی بناء پر رب العالمین نے رسولِ اکرم ﷺ کو خلق عظیم کے مرتبے پر فائز کیا، ان سے ہم نابلد نا آشنا نا واقف ہیں۔

ایک طرف قوم مسلم کی تباہ کن، گھمبیر اور نازک ترین صورتحال ہے تو وہیں دوسری طرف امت مسلمہ کو لاتعداد چیلنجز کا سامنا ہے۔ کفار، سفاکی، چالاکی و بے باکی کے ساتھ اسلام کو مٹانے میں مصروف ہیں، ان کی سب سے بڑی حسرت یہ ہے کہ وہ ہماری نوجوان نسل کو دنیا کی زیب و زینت، مادی زندگی کا عیش و تنعم، لذتوں کے مواقع فراہم کرکے روحانی لذتوں سے بے بہرہ کردے اور رسول اکرم ﷺ کے ارشادات وتعلیمات کی اصل روح کو مسخ کرکے مسلمانوں کے دلوں سے آپ ﷺ کی محبت کا نقش مٹادیں، چنانچہ اسلام دشمن محققین اور متعصب مستشرقین نے رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ سے متعلق شکوک و شبہات کو عام کیا، مادی سطح پر آپ ﷺکی شخصیت کو لوگوں کے سامنے پیش کیا، فضائل و کمالات کا اِنکار کیا، اور مقام نبوت، حقیقتِ نبوت اور وحی پر شکوک و شبہات پیدا کئے، پھر کیا تھا کہ توہینِ رسالت کے مجرمین اور گستاخان رسول بین الاقوامی سطح پر رسول اکرمﷺ کی ذات گرامی پر اعتراضات کرنے لگے۔

در اصل اس کی وجہ ہم خود ہیں کہ مطالعہ سیرت نبوی اور اس کی حقیقی ضرورت و اہمیت کا احساس ہمارے دلوں سے محو ہوگیا ہے، ہماری زندگیوں کی نہج کچھ ایسی بن گئی ہے کہ ہمیں اس اہم خلاء کا احساس بھی نہیں ہوتا جو ہماری زندگیوں میں مطالعۂ سیرت کے فقدان یا کمی کی بناء پر پیدا ہو گیا ہے اور یہ وہ محرومی ہے جس کا ذمہ دار خود ہمارے اپنے سوا کوئی نہیں ہے۔

عصرِ حاضر میں سیرتِ طیّبہ کی ضرورت و معنویت 

یہ بات حقیقت ہے کہ سیرتِ طیبہ کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے، لیکن موجودہ وقت میں اس کی اہمیت و معنویت اور ضرورت دگنا ہوجاتی ہے کیونکہ کہ موجودہ دور گلوبلائزیشن اور عالمگیریت کا دور ہے، اور پوری دنیا کسی گلوبل سسٹم اور عالمگیر نظام کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی آسمان کوچھورہی ہے، ہرروز نئے نئے انکشافات نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں، مادیت کاسیلاب بلاخیز ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا، جدھر دیکھو سامان عیش ونشاط کی فراوانی ہے، شہرتوشہر اب دیہات بھی رفتہ رفتہ جدید سہولیات سے آراستہ ہورہے ہیں، لیکن ایک حیات انسانی کے،کہ جسے اجڑے ہوئے طویل عرصہ بیت چکا ہے، رواداری اور بھائی چارگی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے، اخوت و محبت امن اور خوشحالی کا جنازہ نکل چکا ہے، بلکہ وہ دور جاہلیت عود کر آیا چاہتا ہے، جس کی بیخ کنی کے لیے رسول اکرم ﷺ کو مبعوث کیا گیا تھا، جاہلیت، توہّم پرستی، غارت گری ،دُختر کُشی، حق تلفی غرض موجودہ دور جاہلیت کی منہ بولتی تصویر بن گیا ہے، ایسے پُرآشوب دور اور لادینیت زدہ ماحول میں پوری انسانیت مسیحائی و رہبری کی منتظر ہے، ان حالات میں ہمیں بس ایک شمع ایسی نظر آتی ہے جو اپنی کرنوں سے اس راہِ محبت میں چلنے والوں کی انگلی پکڑ کر انہیں منزل مقصود تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے اورجس کی روشنی میں ہر انسان کے لئے دنیا ہی کا نہیں، بلکہ آخرت کا بھی سامان نجات ہے، ایک ایسی چیز جس پر عمل کرنا آسان اور ایک ایسا سانچہ جس میں خود کو ڈھال لینا نہایت ممکن ہے، اور وہ حسین شمع یا زندگیوں کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرنے والا سانچہ "سیرت طیبہ"ہے، کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ انسانیت کا سب سے بڑا بہی خواہ اگر کوئی ہے تو وہ ذات رسالت مآب نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ فداہ ابی وامی کی ہے۔

تجاویز و سفارشات

(1)امت مسلمہ کی بالعموم اور علمائے دین کی بالخصوص یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اقوام عالم کی رہبری کا فریضہ انجام دیں جو کارنبوت کی تکمیل کے بعد ان کے سپرد ہے ،لہٰذا امت کو درپیش عصری چیلنجز چاہے وہ مذہبی یا سیاسی، معاشی ہوں یا معاشرتی ہر ایک کے اسباب و علل کا جائزہ لے کر سیرت طیبہ کی روشنی میں اس کا حل و تدارک اور لائحۂ عمل مرتب کرنا ہوگا۔

(2)رسول اکرم ﷺ کے فضائل، شمائل اور خصائل کے علاوہ سیرتِ نبوی ﷺ کا جدید پہلوؤں سے مطالعہ کرنا، علمی، عملی، تحقیقی، تنقیدی، نقلی اور عقلی دلائل کی روشنی میں سیرت پر اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دینا ہوگا ساتھ ہی ساتھ اس پہلو کو اُجاگر کرنا ہوگا کہ دینِ اسلام قرونِ اولیٰ ہی نہیں، بلکہ ہر دور کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے اور مسائل کے حل اور پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے سیرتِ طیبہ کی طرف رجوع ہر دور کی ضرورت ہے۔

(3)دنیا کے تمام انسانوں تک سیرتِ طیّبہ کے اخلاقی و روحانی اور آفاقی پہلوؤں کو پہنچانے کے لئے سیرت رسول ﷺ کو صحیح اسلوب و منہج اور حالات زمانہ کے مطابق ہر ہر زبان میں پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

(4)عبادات اور شرعی احکام سے آگے بڑھ کر اجتماعی زندگی، سیاسی حکمت عملی اور دوسری اقوام کے ساتھ سلوک و تعلق کے معاملے میں رسول اللہﷺ کی طرزِ عمل کو سامنے رکھنا ہوگا۔

(5)کتب سیرت بالخصوص قاضی محمد سلیمان منصور پوریؒ کی ’’رحمۃ للعالمین‘‘، علامہ شبلی نعمانیؒ کی کتاب ’’سیرۃ النبی‘‘ مولانا عبدالرؤف دانا پوری کی کتاب ’’اصح السیر‘‘،مولانا سید سلیمان ندوی ؒکی ’’خطباتِ مدراس‘‘ مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی ؒکی ’’نبی رحمت‘‘، ڈاکٹر حمید اللہ حیدرآبادی ؒکا سیرت پر لکھا گیا تمام لٹریچراور ان کے مآخذ و مراجع بالخصوص سیرت ابن ہشام، طبقات ابن سعد، دلائل النبوۃ، زاد المعاد، وغیرہ کو عام کرنا ہوگا۔

(6)یقین رکھیں!! اگر آج دنیا مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی وروحانی ترقی چاہتی ہے اور وہ پُرامن اور خوش حال زندگی کی خواہا ں ہے تو اسے آج سے ساڑھے چودہ سال پیچھے مڑ کر دیکھنا ہوگا،بقول علامہ اقبال ؒ:۔

ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

(7)ان سب کے علاوہ ہمیں پوری اہمیت کے ساتھ سیرت طیبہ کی روح کو سمجھنا ہوگا، اسے اپنے اخلاق و اعمال میں شامل کرنا ہوگا اور عملی طور پر اُسوۂ حسنہ کو فروغ دینا ہوگا کہ جب تک ہماری زندگیاں سیرت طیبہ کے مطابق نہیں ہوں گی، تب تک مادی ترقی کے تمام تر اسباب جمع ہونے کے باوجود ہم تنزلی کا شکار ہی رہیں گے۔