کسی زمانے میں تشہیر کی غرض سے سینماؤں پر فلموں کے بڑے بڑے بینر اور پوسٹر آویزاں کیے جاتے تھے اور جو فلم نمائش پذیر ہوتی تھی اس کے پوسٹر پر انگریزی کی تقلید میں (انگریزی لفظtonight کے ترجمے کے طور پر) ’’آج شب کو‘‘ لکھا جاتا تھا۔ لیکن اسے عموماً ملا کر یعنی آجشبکو لکھا جاتا تھا۔
ہمارے اسکول کے راستے میں ایک سینما پڑتا تھا اور ہم اس کا پوسٹر پڑھتے تو اس پر ’’آجشبکو‘‘ لکھا ہوا دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ ہم اسے ’’آجش بکو ‘‘ پڑھا کرتے تھے۔’’بکو‘‘ تو سمجھ جاتے تھے (کہ اس زمانے میں بھی بکا کرتے تھے ) لیکن آجش کا مطلب کبھی سمجھ میں نہیں آیا۔
پھر کسی ہم جماعت نے کلاس میں مقابلے کی دعوت دی کہ ’’کیلے کی گیلی جڑ ‘‘ قلم کو کاغذ سے اٹھائے بغیر لکھ کر دکھاؤ۔ ہم نے ہار مان لی تو اس نے لکھ کر دکھایا: کیلیکیگیلیجڑ (البتہ نقطے لگانے کے لیے تو قلم اٹھانا ہی پڑا)۔تب اندازہ ہوا کہ’’ آجشبکو‘‘ بھی اسی طرح کی کوئی احمقانہ حرکت ہے جیسی ’’کیلے کی گیلی جڑ ‘‘کو ملا کر لکھنا ۔
مقصد اس ساری تمہید کا یہ ہے کہ بعض لوگ لفظوں کو غیر ضروری طور پر ملا کر لکھتے ہیں ، مثلاً دست کاری اور دست گیر کو ملا کر جب دستکاری اور دستگیر لکھا جاتا ہے تو طالب علم اسے دس تکاری اور دس تگیر پڑھتے ہیں۔ چلیے صاحب یہ تو مرکب ہیں اور بعض مرکبات میں لفظوں کو جوڑ کر لکھنا درست سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اب ایک لفظ کے طور پر برتے جاتے ہیں (اگرچہ توڑ کر لکھنا بہتر ہے کیونکہ اس سے پڑھنے میں سہولت ہوجاتی ہے )، مثلاً دلچسپ (دل چسپ)، دلگیر (دل گیر)، دلکش (دل کش)، ماہنامہ (ماہ نامہ)، کانپور (کان پور)، شاہجہان آباد(شاہ جہان آباد)، بیچارہ (بے چارہ)، بیشتر (بیش تر)، بیتاب (بے تاب)، باغبان (باغ بان) ، نیلگوں (نیل گوں)، عقلمند (عقل مند) وغیرہ۔
لیکن بعض لوگ بعض ایسے الفاظ کو بھی ملا کر لکھتے ہیں جو کسی مرکب کا حصہ نہیں ہوتے اور دو الگ الگ الفاظ ہوتے ہیں ، مثلاً کیلیے (کے لیے)، انکو(ان کو) ، اسلیے (اس لیے)، جسکو (جس کو) ۔ایک بار پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کے پرائیویٹ امیدواروں کی امتحانی کاپیاں جانچنے کے لیے ہماری پاس بھیجی گئیں۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ لفظوں کو ملا کر لکھنے کی وبا وہاں کراچی کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل رہی تھی اورکئی امیدواروں نے ’ہے کہ ‘ کو بھی ملا کرپوری کاپی میں ہر بار’ ہیکہ ‘لکھا تھا۔
خیال آیا کہ آج شب کو اور کیلے کی گیلی جڑ کی طرح پوری امتحانی کاپی میں اسی طرح کی لکھائی ہوتی تو پنجاب یونی ورسٹی کو امتحانی کاپیوں کی مد میں لاکھوں کی بچت ہوجاتی کیونکہ اس طرح دو تین کاپیوں کے بجاے آدھی سے بھی کم کاپی میں پورا پرچہ حل کیا جاسکتا تھا۔ عرض ہے کہ یہ غیر ضروری اور ناروا ہے۔ درخواست ہے کہ ذرا زحمت فرماکر قلم اٹھا لیا کریں۔
ہمارے ہاں اخبارات بھی بعض الفاظ کو قطعی غیر ضروری طور پر ملا کر لکھتے ہیں ، جیسے : ہونگے (ہوں گے)، کیا جائیگا (کیا جائے گا)، لیکر (لے کر)، دیکھکر (دیکھ کر)، دیدیا(دے دیا)، بجکر (بج کر)، کرینگے (کریں گے )، روکدیا (روک دیا)۔ شاید اس کی وجہ اخباری کالم کی تنگ دامانی ہو اور جگہ کم ہونے کی بنا پر، خاص طور پر سرخیوں میں، ملا کر لکھنا پڑتا ہے ۔لیکن یہ عجیب املا الجھنوں پیدا کرتا ہے اور سوال بھی اٹھاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا انگریزی میں کبھی اس طرح کی بے قاعدگی دیکھی گئی کہ جگہ کی تنگی کے سبب دو لفظوں کے درمیانی فاصلے کو ختم کردیا گیا ہو اور انھیں ملا کر لکھا گیا ہو؟ نہ صاحب نہ! انگریزی کی بے حرمتی کا تو کوئی پاکستانی تصور بھی نہیں کرسکتا کیونکہ انگریزی بیگم صاحبہ ہے اور اردو بے چاری پر وہ مثل صادق آتی ہے کہ غریب کی جورُو سب کی بھابی۔