مغل شہنشاہ اکبر نے 1594اور 1596میں لاہور میں دو بحری جہاز تیار کروائے تھے ۔ یہ لاہور کاوہ دور تھا کہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے کیپٹن ہاکنز کے ساتھ انڈیا آئے تاجر وليم فنچ نے کہا تھا کہ لاہور مشرق کا سب سے عظیم شہر ہے۔ اکبر کے متعلق تو یہ خیال ہے کہ دکن کی مہم 1598کے سبب سے وہ لاہور میں جہاز سازی کی صنعت کو قائم نہ رکھ سکا مگر پاکستان میں اس اہم ترین صنعت اور اس سے منسلک دیگر کاروباری امور کیوں نظر انداز ہو گئے اس کی کوئی کمزور وجہ بھی بیان نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ہم کوئی دکن فتح کرنے نکلے ۔ ابھی جب ایس سی او کا اجلاس ہو رہا تھا اور وزیر اعظم چین بھی موجود تھے تو میرے ایک دوست نے میری توجہ اگست میں تحریر کردہ میرے ایک کالم’’ بلیو اکانومی وزیر اعظم کی توجہ‘‘کی جانب مبذول کرائی کہ اس کے بھی تو ڈانڈے اس سے ہی جا ملتے ہیں کیونکہ پاکستان اگر بلیو اکانومی کی جانب پیش رفت کرتا ہے اور سی پیک ، گوادر وغیرہ کے منصوبوں سے حقیقی معنوں میں بہرہ مند ہونا چاہتا ہے تو اس کے پاس بحر ہند کے امور سے متعلق حکمت عملی کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دینے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ۔ یہ ہے تو بد قسمتی کے ہمارے اپنے ہمسائے سے تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ زمینی و فضائی سرحدیں ہوں کہ بحری انکی حفاظت کی غرض سے ہمیں انڈیا سے چوکنا رہنا ہی پڑتا ہے ۔ پاکستان کی قیادت تو انڈیا سے اچھے تعلقات مگر برابری کی سطح پر رکھنے کی خواہش مند ہے جیسے کہ ابھی بھارتی صحافیوں سے ملاقات میں نواز شریف نے اس کا اظہار کیا اور ان کے اس اظہار پر یہ اعتراض کرنا کہ گزشتہ سال شہباز شریف بھی انڈیا نہیں گئے تھے درست نہیں ہے کیونکہ انڈیا میں منعقدہ گزشتہ سال کے ایس سی او اجلاس کو انڈیا نے ورچوئل میٹنگ رکھا تھا اور تمام ممالک کے لیڈران نے ویڈیو لنک پر شرکت کی تھی اور اس کی وجہ روس یوکرائن جنگ ، بھارت کے چین اور پاکستان سے تعلقات تھے مگر یہ فیصلہ بہرحال انڈیا کا ذاتی تھا ۔ اسی طرح سے حالیہ منعقدہ ایس سی او کانفرنس پر یہ اعتراض بھی درست نہیں کہ اس میں صدر شی ، صدر پيوٹن نے شرکت نہیںکی اس لئےیہ بریک تھرو نہیں ہے ۔ یہ اعتراض بھی غلط ہے کیونکہ یہ اجلاس سربراہان حکومت کا تھا جبکہ صدر شی ، صدر پیوٹن سربراہان مملکت ہیں ۔
بہر حال یہ تو چند معترض جملے تھے ۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ انڈیا بحر ہند میں اپنی بحری طاقت کو بہت تیزی سے بڑھا رہا ہے اور اپنے آپ کو چین کے مقابل ایک بحری طاقت کے طور پر پیش کرنے کی حکمت عملی کو اختیار کر رہا ہے ۔ بحر ہند افریقہ کے مشرقی ساحلوں سے لے کر آسٹریلیا کے مغربی ساحلوں تک ہے اور اس میں38 ممالک ہیں ۔ آبنائے ملا کا ، آبنائےہرمز ، باب المندب ، اومبائی تک اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ری یونین آئی لینڈز ( فرانس ) سے لے کر کوکوز آئی لینڈ آسٹریلیا تک اثر و رسوخ قائم ہوتا ہے ۔ اب اس اہم ترین بحر ہند میں جو چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کیلئے بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے، میں مارچ 2024کے آخر اور اپریل کے آغاز میں انڈین نیوی کے 23جنگی جہاز تعینات کر دیے جو بحر ہند میںانڈین نیوی کی سب سے بڑی تعیناتی ہے ۔ اس میں سے بحیرہ عرب میں دس ، مغربی ساحل پر بارہ اور خلیج عدن میں اس کے دو بحری جنگی جہاز ہیں ۔ اسی دوران انڈیا نے اپنی سولہ میں سے گیارہ آبدوزوں کو بھی تعینات کردیا ۔ اس بحری نقل و حرکت کی وجہ یہ بتائی کہ حوثی بحیرہ احمر میں حملے کر رہے ہیں جبکہ صومالی ساحل اور خلیج عدن میں بحری قزاق دوبارہ متحرک ہو گئے ہیں ۔ اب اس کو تو کوئی بھی با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ اس بڑے پیمانے پر بحری فوجی نقل و حرکت صرف حوثیوں یا صومالی قزاقوں کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کے وسیع تر فوجی مفادات ہیں ۔ ایک مضبوط تصور یہ ہے کہ انڈیا کی یہ بحری فوجی نقل و حرکت اس لئے بحر ہند میں ہوئی ہے کہ گزشتہ سال اگست میں پاکستان اور چین کی بحری افواج نے بحیرہ عرب میں فلیگ شپ مشقیں کی تھیں جبکہ چینی نیوی بحر ہند میں انڈیا سے زیادہ قوت سے ہمہ وقت موجود رہتی ہے ۔ اس لئے انڈیا نے یہ اقدامات کئے ۔ انڈین نیوی پاکستان نیوی سے 6 گنا بڑی ہے اور اس کے پاس سولہ فعال آبدوزیں ہیں جن میں پانچ فرانسیسی سکار پین ، چار جرمن ٹائپ 209 اور سات روسی ہیں مگر اس سب کے باوجود انڈین نیوی کے پاس ایک چیز کی کمی پاکستان کے مقابلے میں ہے ۔ پاکستان کے پاس فرانسيسی اگوسٹا 90 بی ایس ہے جو جنوبی ایشیا میں صرف پاکستان کے پاس ہے جو اے آئی پی ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور یہ بہت طویل مدت تک زیر آب آپریشن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ پھر پاکستان نے اسی طرح کی چار آبدوزوں کا معاہدہ چین سے بھی کیا ہوا ہے جبکہ انڈیا اس ٹیکنالوجی کی حامل آبدوز کے حصول کیلئے سر توڑ کوشش کر رہا ہے روس اسکی یہ ضرورت پوری نہیں کر سکا جبکہ اب اسکی امیدوں کا مرکز جرمنی اور اسپین ہے۔ انڈیا نے جو کوریڈور یو اے ای، سعودی عرب اور اسرائیل سے ہوتے ہوئے یورپ تک بنانا ہے اس کیلئے اس کی بحری نقل و حرکت بحر ہند سے پاکستان کےبالکل سامنے سے ہی ہوگی اور کسی کشیدگی کی صورت میں اس کوریڈور کو بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور انڈیا کی موجودہ سرگرمیاں صاف بتا رہی ہیں کہ وہ پاکستان سے بحری تذویراتی لڑائی کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے حالانکہ اس سے آسان راستہ ابھی نواز شریف نے دوبارہ انڈین صحافیوں کو دکھایا ہے کہ انڈیا پاکستان سے با مقصد گفتگو کرکے تمام مسائل کا حل تلاش کرے اور جس میں مسئلہ کشمیر سر فہرست ہے۔