• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا عبدالنعیم

24،25اکتو بربروز جمعرات و جمعہ کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیرِ اہتمام 43 ویں سالانہ دو روزہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر ضلع چنیوٹ کی مسلم کالونی میں منعقد ہورہی ہے۔ جس میں ملک بھر سے شیوخ، اکابرین امت اور حضرات علمائے کرام تشریف لائیں گے۔ 

کانفرنس کے اہم موضوعات میں عقیدئہ ختم نبوت کا تحفظ‘ قادیانیوں کی ارتدادی سرگرمیوں سے مسلمانوں کو آگاہ اور اس سے بچنے کی تلقین کرنا‘ قادیانی جماعت کی جانب سے اسلام‘ مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف مذموم پروپیگنڈے کے سدباب کے لئے تجاویز‘ قادیانیوں کی جانب سے ’’خاتم النبیین‘‘ کی غلط تشریح کا جواب‘ عقیدئہ حیات و نزول مسیح علیہ السلام‘ حضرت امام مہدی علیہ الرضوان کی تشریف آوری‘ جھوٹے مدعیان مہدویت کے بارے میں امت مسلمہ کو حقائق سے آگاہ کرنا‘مسلمانوں کو سیرتِ طیبہ پر عمل کرنے کی تلقین کرنا شامل ہیں۔

آیئے ذرا اس کانفرنس کی تاریخی اہمیت کا جائزہ لیتے ہیں۔ عام طور پر ہم جب جھوٹے مدعیان نبوت کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ یہ ایسے وقت میں سر اٹھاتے ہیں، جب مسلمانوں میں اضطراب ہو اور وہ مصیبت میں مبتلا ہوں۔ اس اضطراب کو انتشار میں بدل کر یہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے ساتھ ساتھ سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

اس تناظر میں جب ہم گزشتہ صدی کے جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کی سرگرمیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں بھی یہی صورت نظر آتی ہے کہ مسلمان برصغیر میں اپنی طویل غلامی کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں‘ ہزاروں علمائے کرام تختہ دار پر اس طرح لٹکائے گئے کہ خود برطانوی سامراج کے باضمیر دانشور اس ظلم پر چلّا اٹھے، مگر ان مظالم میں کمی نہ آئی۔ 

ایسے وقت میں علمائے کرام اور اکابر امت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ‘حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ‘ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ‘ حضرت حافظ ضامن شہیدؒ نے جہاد کا اعلان کرکے مجاہدین کو اتارا‘ جس میں ابتدائی طور پر ظاہری شکست ہوئی، مگر تحریک آزادی کی روح مسلمانوں کے دلوں میں پھوٹ اٹھی۔

اس تحریک کو کچلنے کے لئے عسکری قوت کے ساتھ حکومت وقت نے پادریوں کے غول کے غول برصغیر میں بھیج دیئے ‘ جسے علمائے حق نے ناکام بنادیا۔ اس راستے سے مایوس ہوکر اسلام مخالف مفکروں نے جھوٹے مدعی نبوت کا شوشہ چھوڑ کر مسلمانوں میں اندرونی انتشار کو ہوا دینے اور ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کی اور مرزا غلام احمد قادیانی کو پہلے مناظر اسلام کے طور پر مشہور کرکے مسلمانوں کے ایک حلقے کی ہمدردی اور عقیدت کا محور بنایا۔

انہوں نے پہلے ملہم من اللہ‘ مجدد‘ اور پھر مسیح موعود اور آخر کار جھوٹے مدعی نبوت کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کردیا۔ علمائےلدھیانہ نے سب سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر کا فتویٰ دیا۔ وہ ۲۶/مئی ۱۹۰۸ء کو جہنم رسید ہوا تو اپنے پیچھے پیروکاروں کی ایک جماعت کو چھوڑ ا جس کا پہلا خلیفہ حکیم نورالدین تھا‘ اس کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا مرزا بشیرالدین محمود خلیفہ بنا، اس نے جھوٹ کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی مہم بہت تیزی کے ساتھ شروع کی۔ 

حکومت کی سرپرستی نے انہیں بہت زیادہ جری بنادیا اور وہ قادیان کے علاوہ کشمیر اور دیگر مقامات پر بھی مسلمانوں کے پیچھے پڑگئے‘ ایسی صورت میں محدث العصر حضرت علامہ سیّد محمد انور شاہ کشمیری ؒ نے لاہور میں پانچ سو علمائے کرام کو جمع کرکے قادیانیوں کی سرگرمیوں کو روکنے اور عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے کام کرنے کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہوئے سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو ’’امیر شریعت‘‘ کا خطاب دے کر خود بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور علما سے بھی بیعت کرائی۔ 

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے فوری طور پر عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیوں کی سرگرمیوں کا تعاقب شروع کردیا۔ قادیانیوں نے حکومت کے ذریعے ان علمائے کرام پر جیلوں کے دروازے کھول دیئے‘ مقدمات کی بھرمار ہوگئی، لیکن علمائے کرام قربانیوں کے سلسلے کو دراز کرتے ہوئے اپنے مشن میں مصروف رہے اور ۱۹۳۱ء میں قادیان میں باقاعدہ کانفرنس کی اجازت نہ ملنے کے بعد قادیان سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے شرکت کی۔ ۱۹۳۲ء میں دوبارہ اسی جگہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ 

یہ سلسلہ قیام پاکستان تک اسی طرح جاری رہا۔ قیام پاکستان کے بعد ظفراللہ قادیانی کی کوششوں سے قادیانیوں نے چنیوٹ سے متصل دریا کے پار ایک بہت بڑا قطعہ اراضی خرید کر اسے ربوہ کا نام دیا اور قادیانیوں کو وہاں بسانا شروع کردیا۔ یہاں پر انہوں نے سالانہ جلسہ شروع کرکے اس جلسے کو حج کا نام دیا جس میں ہر جگہ سے قادیانی جمع ہوتے تھے۔

مجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام ۱۹۴۹ء میں عمل لایا گیا اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے بھی قادیانیوں کے سالانہ جلسے کے ایام میں چنیوٹ میں ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد شروع کردیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے‘ ظفراللہ قادیانی کو برطرف کرنے اور ربوہ کو کھلا شہر قرار دینے کے مطالبہ کے ساتھ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کا آغاز ہوا۔ 

دس ہزار نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا‘ ایک لاکھ سے زائد علمائے کرام اور جاں نثارانِ ختم نبوت جیلوں میں ڈالے گئے‘ حکومت نے لاہور میں مارشل لاء لگایا اور تحریک کو دبانے کی بھرپور کوشش کی‘ بالآخر ظفراللہ قادیانی برطرف ہوا۔ دیگر مطالبات التوا میں ڈال دیئے گئے۔ ۲۹/مئی ۱۹۷۴ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبا کے ساتھ ربوہ ریلوے اسٹیشن پر وہ اندوہناک سانحہ پیش آیا جو بالآخر قومی اسمبلی کی جانب سے ۷/ستمبر ۱۹۷۴ء کو قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کے فیصلے پر منتج ہوا۔ ۱۹۸۴ء میں قادیانیوں کی اشتعال انگیز سرگرمیوں کے حوالے سے شیخ المشائخ خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد ؒکی قیادت میں پھر تحریک چلی جس کے نتیجے میں امتناع قادیانیت آرڈی نینس جاری ہوا اور قادیانیوں کی سالانہ کانفرنس پر پابندی عائد ہوئی۔ 

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کو چناب نگر میں ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد کی اجازت مل چکی تھی اس لئے ختم نبوت کانفرنس باقاعدگی کے ساتھ قادیانیوں کے مرکز چناب نگر میں منعقد ہونے لگی۔ اس طرح یہ کانفرنس ۱۹۳۱ء میں قادیان کے مضافات میں منعقد ہونے والی کانفرنس کا تسلسل ہے۔

اس کانفرنس میں امسال بھی پاکستان بھر کے مختلف شہروں سے ہزاروں کی تعداد میں عاشقان رسولﷺ اور عقیدۂ ختم نبوت کے محافظین اور ناموس رسالت کے پاسبان شریک ہوکر حضوراکرمﷺ سے اپنی لازوال محبت اور دلی وابستگی کا ثبوت دیں گے۔ 

تمام مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہوکر جہاں علمائے کرام، اکابرین ملت، مذہبی و سیاسی زعماء کے بیانات سے اپنے ایمان و عقیدہ کو جلا بخشیں، وہاں آج کے ماحول اور حالات میں عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے راہنما اصولوں سے بھی مستفید ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ، حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا تحفظ کرنے، زندگی بھر اسے مشن بنانے اور اس پر موت نصیب فرمائے اور آخرت میں حضور اکرم ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ (آمین ثم آمین)