• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ

عقیدۂ ختم نبوت وحدت اسلامی کا مظہر ہے۔ یہ کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں، بلکہ مسلمان کہلائے جانے والے تمام مسالک و مکاتب کا متفقہ عقیدہ ہے۔ اس عقیدے سے بغاوت کے مجرم قادیانی کہلاتے ہیں، تحفظ ختم نبوت کی آڑ میں فرقہ وارانہ تفریق ملک دشمن اور اسلام مخالف عناصر کا کام ہے ، جو دراصل دین اسلام میں پہلی تفریق پیدا کرنےوالے ٹولے خوارج کا شیوہ رہا ہے۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کسی قسم کی مروجہ سیاسی و مسلکی وابستگی نہیں رکھتی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین و اراکین اپنی اپنی سیاسی وابستگی رکھنے کے باوجود بہ حیثیت مسلمان اپنے دینی عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہر مسلمان اس ایمانی قافلے کا مسافر بن سکتا ہے، کیوں کہ تحفظ ختم نبوت فروعی مسئلہ یا فرقہ وارانہ نظریہ نہیں، بلکہ پوری امت کا متفقہ عقیدہ ہے؛ جس کے منکر وہ لوگ کہلاتے ہیں جو مسیلمہ کذّاب یا مرزا غلام قادیانی جیسے کسی مدعئ نبوت کو خدا کا پیغمبر یا مصلح وغیرہ سمجھتے ہوں۔

برصغیر پاک و ہند میں تحفظ ختم نبوت کے لیے جدوجہد کی ابتدا یوں تو ۱۸۸۰ء ہی میں ہوگئی تھی، جب قادیان میں قادیانی فتنے نے جنم لیا تھا۔ تب علمائے لدھیانہ اس جدوجہد کے سرخیل تھے، انہی کے نقشِ قدم پر علمائے دیوبند، مشائخِ خانقاہ گولڑہ، مولانا حسین احمد بٹالوی اہلحدیث وغیرہ رحمہم اللہ چلے ۔ لیکن جماعتی سطح پر اور تحریکی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز اکتوبر ۱۹۳۴ ء میں اس وقت ہوا، جب پہلی بار ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ 

یہ کانفرنس قادیان میں ہونا تھی، لیکن قادیانی واویلا پر فرنگی قابض حکومت نے پابندی عائد کر دی ، پھر یہ کانفرنس شہر سے باہر منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کے کلیدی خطاب نے مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا محمود کو بے نقاب کر دیا تھا اور قادیان میں بسنے والے مسلمانوں کے اندر اس فتنے کے خلاف بیداری اور جرأت و ہمت کی لہر دوڑا دی تھی ۔ حضرت شاہ جی ؒ کو امام العصر حضرت علامہ سید انور شاہ کاشمیری ؒ نے محاذِ ختم نبوت کا امیر شریعت مقرر فرمایا تھا ۔

یہ کانفرنس اس تحریکی جدوجہد کی خِشت اول تھی، تب سے آج اس سلسلے کو ۹۰ سال کا عرصہ بیت گیا ہے۔ ہر سال اکتوبر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے تحت جامع مسجد و جامعہ عربیہ ختم نبوت چناب نگر میں ہونے والی ’’ ختم نبوت کانفرنس ‘‘ دراصل ۱۹۳۴ ء کی کانفرنس کا تسلسل ہے ، جو اس سال ۲۴ ، ۲۵ اکتوبر کو بڑے تزک و احتشام سے منعقد ہو رہی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد جنوری ۱۹۴۹ ء میں تحفظ ختم نبوت کے لیے ’’ مجلس تحفظ ختم نبوت ‘‘ کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ ہوا ، جوآج اپنے اکابرین و مبلغین کی جاں گسل محنتوں اور اس عظیم کاز کی وسعتوں کی بنا پر ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ‘‘کہلاتی ہے۔ اس جماعت نے اپنے کام کا آغاز ستمبر ۱۹۵۴ ء میں کیاتھا ، امیر شریعت حضرت اقدس سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے اس کی باگ ڈور سنبھالی۔ آج اس فیصلے کو ۷۵ سال اور جماعتی کام کے آغاز کو ۷۰ سال ہو گئے ہیں۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر وطن عزیز پاکستان کی اوّلین، قدیم اور بڑی جماعت ہے۔اس جماعت کی قیادت ہر دور میں وقت کے اکابر مثلاً امیر شریعت حضرت سید عطاءاللہ شاہ بخاری، محدث العصرحضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری، قطب الاقطاب حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمہم اللہ تعالیٰ ایسے ناموَرانِ اسلام نے کی ہے۔ ۷ ستمبر۱۹۷۴ ء کی تاریخ ساز کامیابی اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے چلائی گئی تحریک کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھی، جہاں اسمبلی میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، حضرت مولانا شاہ احمد نورانی ؒ، پروفیسر غفور احمدؒاور دیگر سیاسی زعما جب کہ اسمبلی سے باہر پورے ملک میں اس وقت اس جماعت اور تحریک کی قیادت و رہنمائی محدث العصر علامہ سیّد محمد یوسف بنوری ؒ، علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید ؒ، سیّد مظفر علی شمسیؒ اور دیگر اکابرین ِ ملت فرما رہے تھے۔

۷ ستمبر ۱۹۷۴ ء کو پاکستان کے آئین میں قادیانی غیر مسلم قرار دیے گئے اور اپریل ۱۹۸۴ ء میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا، اس آئینی کامیابی کو ۵۰ سال اور آرڈیننس کے اجرا کو ۴۰ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ ان نسبتوں سے سال رواں ۲۰۲۴ ء کی اہمیت کئی چند نمایاں ہو گئی ہے۔

سال رواں ۲۰۲۴ ء میں یہ کارواں اپنے قیام کو نصف صدی کا سفر طے کر رہاہے اور ۵۰سالہ یوم تحفظ ختم نبوت کا جشن زرّیں منا رہا ہے، جس کا نعرہ بچے بچے کی زبان پر ہے۔ مینارِ پاکستان لاہورکا جلسہ اس عنوان پر پورے ملک کے مرکزی جلسے کی حیثیت سے منعقد ہوا تھا، اس جلسے کا اعلان حضرت مولانا مفتی محمود کے جانشین حضرت مولانا فضل الرحمٰن دامت برکاتہم نے کیا اور اس کی کامیابی کے لیے ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے شانہ بشانہ تگ و دو کی ، چھوٹے بڑے شہروں میں دعوتی مہم چلائی ، مبلغین ختم نبوت اور کارکنانِ جمعیت نے جان گسل محنت کی، جس کی بدولت لاہور میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ختم نبوت کانفرنس ’’یوم الفتح ‘‘کے عنوان سے ہوئی ۔ اس طرح عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ہر دور کی طرح اس بار بھی محاذِ ختم نبوت پر پوری قوم اور ملت کی ترجمانی کا فرض ادا کر رہی ہے۔

سالِ رواں ایک قادیانی مبارک ثانی کو شعائر ِ اسلام کے غیر قانونی استعمال کے جرم کے باوجود سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے پر ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلائی گئی ، مظاہرے اور جلسے جلوس ہوئے ، اسلام آباد میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی میزبانی میں کُل جماعتی اجلاس ہوا ، جس میں تمام دینی و سیاسی جماعتوں نے اکٹھے ہو کر اس فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ، چیف جسٹس کے نام کھلا خط لکھا گیا، جس میں ان سے اپنے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لینے کی درخواست کی گئی تھی ، راقم نے بھی اپنے ایک مضمون میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے اس کی غلطیاں واضح کیں، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی ، قائد ِ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمٰن، ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر، علامہ جواد نقوی، اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر ملکی و ملی قائدین نے عدالت کی رہنمائی کی، جس کے بعد بالآخر عدالت عظمیٰ نے اپنا سابقہ فیصلہ واپس لیتے ہوئے اس قادیانی کی ضمانت منسوخ کی اور قادیانیوں کو پابند کیا کہ وہ دین اسلام قبول کیے بغیر شعائر ِ اسلام کا استعمال نہیں کر سکتے، نیز قادیانی پاکستان کے آئین و قا نون پر عمل کرتے ہوئے اپنا مذہب ڈکلیئر کرنے کے پابند ہیں ، خاتم النبیین آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ الحمدللہ ! اس تاریخ ساز کامیابی میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔

اس جماعت کے دست و بازو بنیے اور اس کے پرچم تلے ہونے والی ملک بھر کی کانفرنسوں کو کام یاب بنانے میں اپنا کردار ادا کیجیے ،چناب نگر کانفرنس میں شرکت کر کے اپنا ایمان بڑھایئے۔

حالیہ کانفرنس ۲۴ ، ۲۵ اکتوبر بروز جمعرات و جمعہ جامع مسجد و جامعہ عربیہ ختم نبوت ، مسلم کالونی چناب نگر میں امیر مرکزیہ حضرت مولانا حافظ ناصر الدین خاکوانی مد ظلہ کی زیرصدارت ، نائب امیر مرکزیہ حضرت مولانا خواجہ عزیز احمد دامت برکاتہم کی زیر نگرانی اور نائب امیر مرکزیہ حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بَنوری زید مجدہ کی سرپرستی میں منعقد ہو رہی ہے ، جس میں ’’توحید باری تعالیٰ ، عقیدہ ختم نبوت ، سیرت خاتم الانبیاء ، حیاتِ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ، ظہورِ امام مہدی علیہ الرضوان، عظمت ِ صحابہؓ و اہل بیت ؓ، اتحادِ امت محمدیہ ، پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی حدود کا تحفظ ‘‘ جیسے اہم موضوعات پر مختلف دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین ، علمائے کرام و مشائخ عظام ، دانش ور و قانون دان خطاب کریں گے ۔ کانفرنس ۲ روز تک جا ری رہے گی ، جو جمعرات کی صبح شروع ہو کر جمعہ کی شام کو اختتام پذیر ہوگی۔

اللہ تعالیٰ اس کانفرنس کو ملک و ملت کے حق میں مفید بنائے ، اس کے ایمان افروز اثرات ہم سب کو نصیب فرمائے ، قادیانیت کو حضرت خاتم النبیین ﷺ کے دامن رحمت سے وابستگی کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین بجاہ سید النبی الکریم)