• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: کام کی نوعیت یہ ہے کہ امپورٹ اور ایکسپورٹ کا کام کیا جاتا ہے اور عام مزدور کی ماہانہ اجرت 15ہزار یا 20 ہزار روپے طے شدہ ہے ، لیکن وہ مزدور آؤٹ ڈور کے کام میں ہر جگہ اپنا کمیشن بناتا ہے، مثلاً سیٹھ نے 10ہزار روپے دیے اور کہا کہ یہ کام کرکے آجاؤ، اب وہ مزدور 5ہزار دے کر وہ کام کرواتا ہے ، باقی 5 ہزار اس کے ہوگئے، سیٹھ واپس نہیں لیتا اور سیٹھ کو پتا ہوتا ہے کہ یہ مزدور آگے کھلائے گا، نہیں تو کام ہوگا نہیں اور وہ کام لاکھوں کروڑ کا ہوتا ہے، جس میں سیٹھ کو ٹھیک ٹھاک نفع ہوتا ہے ، اسی لیے مزدوروں کو کہا جاتا ہے کہ کام کروالیا کرو ، جتنی رشوت بھی دینی پڑے اس کے بغیر کاروبار میں نفع نہیں ہوتا اور مزدور اپنی تنخواہیں اسی طرح رشوت کمیشن کے ذریعے لاکھوں میں ماہانہ وصول کرتے ہیں اور سیٹھ کو بھی بلکہ اس کاروبار سے جڑے ہرفرد کو پتا ہوتا ہے، یہ سب لین دین کرنا پڑتا ہے تو کیا اس طرح کاروبار کرنا جائز ہے؟ اور یہ سیٹھ کی آمدن لاکھوں میں اور مزدور کانفع تنخواہ سے ہٹ کر بنانا یہ جائز ہے؟ اسی آفس میں دوسرا ملازم بھی جاب کرتاہے تو اس کی تنخواہ کاکیا حکم ہے اور اس کا کھانا پینا جب کہ وہ سب جانتا ہے ، کاروبار کس طرح سیٹھ کررہاہے وغیرہ۔ اس کے متعلق حلّت و حرمت کےحکم سے آگاہ فرمائیں ؟

جواب: واضح رہے کہ رشوت دینا اور لینا حرام ہے، رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت کی گئی ہے، اور اس پر بہت سخت وعیدیں آئی ہیں، لہٰذا رشوت لینا، دینا یا اس حرام کام میں معاون بننا ناجائز اور گناہ ہے۔ امپورٹ یا ایکسپورٹ کے کام میں بھی رشوت دے کر کام کروانا جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص جائز طریقے سے، حلال چیزیں امپورٹ یا ایکسپورٹ کرے اور جائز اور ضروری ، قانونی تقاضے اور شرائط بھی پورے کرے، اور رشوت دینے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے، لیکن اس کے باوجود اس کا سامان رشوت لیے بغیر کلئیر نہیں کیا جارہا ہو تو اپنے اس حق کی وصولی کے لیے اگر یہ شخص کوئی رقم دیتا ہے تو یہ گناہ گار نہیں ہوگا، البتہ لینے والا گناہ گار ہوگا۔

1۔ آپ کا سوال عام ہے، اس میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ مذکورہ کاروبار میں کس صورت میں اور کیوں یہ رقم دی جارہی ہے؟ البتہ اصولی جواب ماقبل میں تفصیل سے ذکر ہوگیا ہے، اسے دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔

2۔ باقی مجبوری کے بغیر ملازم کے لیے بھی رشوت دے کر کام کروانا جائز نہیں ہے، یہ بھی گناہ میں تعاون کی وجہ سے گناہ گار ہوگا، اور جہاں اپنے ثابت شدہ حق کی وصولی کے لیے مجبوری ہو، وہاں گنجائش ہوگی۔ تاہم ملازم کا مالک سے دس ہزار لے کر پانچ ہزار آگے دینا اور مالک کو بتائے بغیر پانچ ہزار خود رکھنا جائز نہیں ہے، یہ اس کے لیے حلال نہیں ہوں گے، البتہ اگر مالک سے اجازت لے لے، تو یہ جائز ہوگا۔

3۔ اگر مذکورہ کمپنی کا کاروبار حلال ہے تو اس جگہ جائز کام کرنا جائز ہے، اور اس کی تنخواہ بھی حرام نہیں ہوگی، باقی نا حق رشوت دے کر مال امپورٹ کرنے یا ایکسپورٹ کرنے کا گناہ کرنے والے پر ہوگا، اور جس صورت میں ملازمت جائز ہوگی ، اس صورت میں اس ملازم کی تنخواہ سے کھانا پینا بھی جائز ہوگا۔