• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظامِ فلکیات اور اُس میں پوشیدہ قُدرت کی نشانیاں

ڈاکٹر نعمان نعیم

قرآن کریم کی متعدد آیات نے علم فلکیات کا احاطہ کیا ہوا ہے اور پھر ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو علم فلکیات پر غور کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں بہت سے دلائل اور براہین ہیں، تاکہ وہ ان کے ذریعے خدائے واحد جیسی لطیف ہستی کو پاسکیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورۂ آل عمران میں فرماتا ہے:آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقل مندوں کے لئے یقینا ًکئی نشانیاں (موجود) ہیں۔ (وہ عقل مند) جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے (رہتے) ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے بارے میں غوروفکر سے کام لیتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تو نے اس (عالم) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا۔

پھر سورۂ ق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کیسا بنایا ہے اور اسے زینت دی ہے اور اس میں کوئی شگاف نہیں ہے۔ فلکیات کے حوالے سے قرآن مجید میں زمین و آسمان کی پیدائش کو اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے بیان کیا گیا ہے۔ (سورۃالروم:23) اللہ تعالیٰ زمین وآسمان اور ان میں بسنے والی تمام مخلوقات کے خالق ہیں جس طرح انس و جن کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا، اسی طرح باقی مخلوقات کو بھی کسی نہ کسی مقصد کے لیے پیدا کیا ،ہر مخلوق اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ ان مخلوقات میں سورج چاند اور ستارے بھی شامل ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے جاہلیت کی ایک برائی یہ بھی ذکر فرمائی:’’وَالاِسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ ‘‘ لوگ ستاروں کی گردش اور ان کے اپنی اپنی منازل میں طلوع و غروب کی وجہ سے بارشوں وغیرہ کے برسنے کا اعتقاد رکھیں گے۔ حضرت زید بن خالد ؓسے مروی ہے کہ حدیبیہ کے مقام پر رات کو بارش ہوئی اور صبح اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں نماز فجر پڑھائی ،جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف رخ مبارک پھیر لیا اور پوچھا: کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ آپ کے رب نے کیا فرمایا؟ ہم نے عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے بندوں نے صبح کی تو مجھ پر ایمان رکھتے تھے اور ستاروں کے منکر تھے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے نے بارش برسائی تو ایسے کہنے والا شخص میرا منکر جبکہ ستاروں پر اعتقاد رکھنے والا ہے۔(صحیح بخاری، :846)

ارشادِ ربانی ہے:اور سورج، چاند اور ستارے سب کے سب اس(اللہ)کے حکم سے(ایک مقرر، منظم اور منضبط نظام کے)تابع بنا دیے گئے ہیں۔ (سورۃ الاعراف،:54) حضرت ابوبکرؓ سے مروی طویل حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے دو بڑی نشانیاں ہیں۔(صحیح بخاری، 1063)ارشادربانی ہے:اللہ وہی ذات ہے جس نے سورج کو روشنی کا ذریعہ اور منبع بنایا۔(سورۂ یونس: 5)اور سورج اپنے مقرر کردہ راستے پر چلتا ہے جو راستہ غالب علم والے (اللہ تعالیٰ)کی طرف سے مقرر کردہ ہے۔ (سورۂ یٰس،: 38)حضرت ابوذر ؓسے مروی ہےکہ میں سورج کے غروب کے وقت نبی کریم ﷺ کے پاس مسجد میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ابوذر!کیا آپ جانتے ہیں کہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی اس بات کو زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ 

آپ ﷺ نے فرمایا: جب غروب ہونے کے لیے اپنے مقام کی طرف چلا جاتا ہے تو زیر عرش اللہ کو سجدہ کرتا ہے۔(صحیح بخاری، 4802)سورج کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کا ہر طلوع وغروب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوتا ہے اور یہ اس کی اجازت کا تابع ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کا تابع فرمان ہونا ہی اس کا سجدہ قرار دیا گیا ہے۔ 

ارشاد ربانی ہے:ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا۔رات کی نشانی کو ہم نے بے نور اور دن کی نشانی کو روشن بنایا،تاکہ تم اپنے رب کا فضل(روزی کو بآسانی) تلاش کر سکو، تاکہ تم سالوں کی گنتی اور(مہینوں کا ) حساب معلوم کر سکو۔ (سورۂ بنی اسرائیل)سورج اور چاند(اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلکی) حسابات کے مطابق ہیں۔(سورۃ الرحمٰن، 5)سورج کے ذریعے بعض نمازوں کے مستحب، مسنون اور مکروہ اوقات، روزے کے سحر وافطار کا حساب کتاب بھی لگایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ سمتِ قبلہ متعین کرنے میں بھی سورج کو مدار بنایا جاتا ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:اور ہم نے سورج کو روشنی اور حرارت کا مرکز بنایا۔ (سورۃ النباء: 13)

حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں سورج گرہن ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا ،لوگوں نے نظریہ بنالیا ہے سورج و چاند کو گرہن اس لیے لگتا ہے کہ کسی عظیم شخصیت کی موت واقع ہوئی ہے، حالانکہ یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے ،سورج اور چاند کو گرہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا ،یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے بڑی نشانیاں ہیں۔(سنن الکبریٰ للنسائی،: 1883)

ارشادِ ربانی ہے:اور اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو(اپنے حکم کا )تابع بنادیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک (اپنے محور میں)متعینہ وقت(قیامت)تک چلتا رہے گا۔(سورۂ زمر: 5)جب سورج(بے نور ہو جائے گا اور اس کو)لپیٹ دیا جائے گا۔(سورۃ التکویر، 1)اے میرے پیغمبر! لوگ آپ سے نئے مہینوں کے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ فرما دیں کہ یہ لوگوں(کے مختلف عبادات و معاملات) اور حج کے اوقات متعین کرنے کے لیے ہیں۔ (سورۃ البقرہ، :189)

ارشادباری تعالیٰ ہے:بے شک، ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں کی خوبصورتی سے مزین کیا۔ (سورۃ الصافات: 6)حضرت قتادہ رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو تین بنیادی مقاصد کے لیے تخلیق فرمایا ہے: آسمان کی خوبصورتی کے لیے، سرکش شیاطین کو مار بھگانے کے لیے اور راستے معلوم کرنے کے لیے۔ جو شخص ان تین مقاصد کے علاوہ ستاروں کے بارے میں ان سے ہٹ کر نظریہ رکھے تو وہ اس بارے میں غلطی پر ہے۔ اس نے اپنی زندگی کے ایک حصے کو اس میں ضائع کر دیا ہے اور ان باتو ں میں بھٹکتا رہا جس کا اس کو کچھ بھی علم نہیں۔(صحیح بخاری، باب فی النجوم)

(ان ستاروں کو )ہر سرکش شیطان سے حفاظت کا ذریعہ بنایا۔وہ اوپر کے جہان کی باتیں نہیں سن سکتے اور ان پر ہر طرف (جس طرف سے بھی جانے کی کوشش کرتے ہیں)سے مار پڑتی ہے، انہیں دھکے دیے جاتے ہیں اور انہیں آخرت میں دائمی عذاب ہوگا۔ ہاں اگر کوئی شیطان اوپر کے جہان کی کوئی بات سن بھی لے تو ایک دہکتا ہوا شعلہ اس کے پیچھے لگ کر بھسم کر دیتا ہے۔(سورۃ الصافات، تا 10) اور راستوں کی پہچان کے لیے بہت سی علامات بنائیں اور ستاروں سے بھی لوگ راستے سمت معلوم کرتے ہیں۔ (سورۃ النحل:16) معاشرے میں چند ایسی جہالتیں رائج ہیں جو سراسر ایمان کی کمزوری اور بداعتقادی پر مبنی ہیں۔ ان سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔

حضرت معاویہ بن الحکم ؓ سے مروی ہے میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے عرض کیا:کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہم جاہلیت(قبل از اسلام)کے زمانے میں کیاکرتے تھے۔ ایک یہ بھی ہے کہ ہم کاہنوں کے پاس جایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کاہنوں کے پاس نہ جایا کرو۔ (صحیح مسلم: 4133)

امّ المومنین سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ بعض اوقات کاہن ایسی باتیں بتاتے ہیں جو درست ثابت ہو جاتی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ درست بات جنوں کی طرف سے ہوتی ہے جسے وہ کاہن کے کانوں میں ڈالتے ہیں اور وہ کاہن اس میں سو(بکثرت)جھوٹ ملا لیتے ہیں۔(صحیح مسلم: 4134) سرکش جنات جن لوگوں کوفرشتوں سے سنی ہوئی بعض باتیں بتاتے ، انہیں’’کاہن‘‘ کہا جاتا۔

جس کا یہی پیشہ ہو کہ جنات سے سنی ہوئی باتوں کو لوگوں میں غیب دانی کے دعویٰ کے ساتھ پیش کرے اسے ’’کہانت‘‘ کہتے ہیں۔حضرت معاویہ بن الحکم سُلمیؓ سے مروی ہے کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ ہم بدفالی بھی لیتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بدفالی محض تمہارے دل کا ایک وسوسہ ہے تم اس کے پیچھے نہ پڑو۔(صحیح مسلم، : 4133)

چاند کی 28 منزلوں کے مطابق عربی زبان کے حروف تہجی میں ہر ہر حرف کو ایک ایک منزل کے لیے مقرر کیا گیا اور پھر ہر حرف کی تاثیر متعین کی گئی ہے اور اسے انسانی قسمت پر اثر انداز مانا گیا ہے۔ اس علم کے نتائج کو قطعی ماننا اوراس پر اعتقاد رکھناحرام ہے۔ ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ کر خوشی و غمی، شادی، موت، اولاد، نوکری، ملازمت، کاروبار وغیرہ کی اطلاع دی جاتی ہے۔ اس علم کے نتائج کو قطعی ماننا اوراس پر اعتقاد رکھناحرام ہے۔بعض لوگ پتھروں میں ایسی تاثیر مانتے ہیں کہ انسانی زندگی میں خوشی غمی، دکھ سکھ وغیرہ میں اسے ذاتی طور پر موثر مانتے ہیں۔ مذکورہ اعتقاد کے مطابق پتھر پہننا حرام ہے۔ 

بعض لوگ ایسی مخصوص جنتریوں سے بھی اپنے حالات و واقعات کی آگاہی کی کوشش کرتے ہیں جن میں ستاروں اور بُرجوں کی مدد سے سال کے اندر ہونے والے اہم اہم واقعات اور حادثات کے متعلق پیش گوئیاں درج ہوتی ہیں۔ پھر ان پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ جنتری میں درج باتوں کو قطعی ماننا اور اس پر اعتقاد رکھناحرام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں احکام شریعت پر عمل کرنے اور توہّمات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین )