سیاست دانوں میں ان دونوں بھائیوں کو شعر پڑھنے، نواز شریف کو تو گانے اور گانے والیاں بھی بہت پسند تھیں۔ وہ جب ڈپر یس ہوتے تھے۔ کلثوم (جو ہماری دوست اور انکی بیوی تھی) کی وفات کے بعد تو ذہنی طور پر ہر سیاست سے لیکر دوستوں تک سے بیزار ،شکل سے بھی آزردہ نظر آتے ہیں۔ بڑا کمال کرتی ہے بی بی مریم جو اپنے ہزاروں کاموں کے باوجود باپ کی دلداری کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
سیاست کی گھمن گھیریوں میں برج الٹنا، خاص کر پاکستان میں کوئی عجوبہ یا حیران کن بات نہیں۔ کیسے اسکندر مرزا آئے اور کیسے ان کو ملک بدر کیا گیا۔ کیسے ایران میں شہنشاہ کو ملک بدر ایسا کیا گیا کہ کوئی ملک ان کو لینے کیلئے تیار نہ تھا۔ اب ایرانی شہزادہ، کچھ ایرانی سیاست میں منہ مارنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ حمزہ بھی ایسی بساط پر اپنا پیادہ چلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ مگر ہمیں تو اپنے ملک میں ہونے والی افراتفری میں مولانا صاحب کا گھر ایمرجنسی سینٹر لگ رہا تھا کہ ایک آتا، دوسرا جاتا اور وہ کمال شفقت اور سکون سے سب کی لائق اور نالائق باتیں بڑے حوصلے سے سنتے رہے۔ مجھے انکے چہرے پر سکون اور متانت دیکھ کر انکے والد صاحب جو بھٹو دور میں اہم کردار ادا کرتے رہے تھے، اسلئے یاد آئے کہ زندگی کے آخری برسوں میں ریواز گارڈن میں کسی کوٹھی میں رہائش رکھتے تھے اور ہم لوگ یعنی سارے جوان ادیب، صحافی نثار عثمانی اور منو بھائی کی ہمراہی میں صبح نو بجے کے قریب ان سے کچھ سیکھنے اور باتیں کرنے جاتے تھے۔
آئینی طور پر جو ایک طوفان تھا۔ وہ کئی دن اور کئی راتوں کو جاگنےمیں گزارنے کے بعد، صبح کی اذان کے ساتھ پارلیمنٹ سے پاس ہوا اور سارے بحران نے شاید پہلی دفعہ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھا۔ اب ایک سوال جو شاہد خاقان سے لیکر دیگر سنجیدہ سیاستدان بار بار اٹھا رہے ہیں کہ اس افراتفری سے عدلیہ کو نیا رخ دینے کا مقصد کیا ہے۔ مگر پاکستان کے اصل مصائب اس طرح حل نہیں ہونگے کہ ایک طرف عمران ضدی بچہ بن کر، مفاہمت کا یہ آخری موقع جو مولانا نے بنانے کی راہ ہموار کی اور جس پر مقتدر قوتوں کو بھی اعتراض نہ تھا، وہ بھی ایک ’ناں‘کے ذریعہ گنوا دیا۔
پاکستان کو قرض ملنا اور وہ بھی ماضی کی طرح ترلے کرنے کے بعد، آگے کیا دکھاتا ہے۔ ہر حکومت کی بدعہدیوں کو دیکھ کر سیاست کا اگلا ورق پلٹ کر تجربے کرتے رہے اور سارے سیاست دان اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق سہولت کاروں کے ساتھ مل کر ملک کی بنیادوں میں چھپے ذخائر کھاتے اور باہر کے ملکوں میں ریٹائرڈ چیف ہوں کہ 22گریڈ کے افسر حسب توفیق جزیرے اور عمارتیں خریدتے اور بیچتے رہے۔ آخر، اس وقت سیاسی اور معاشی طور پر ہمیں قلاش سمجھ کر، کوئی بھی ہمسایہ تجارت کرنے کو تیار نہیں۔ کے پی کے جرگے اور اسی طرح بلوچستان کے جرگے، من مانی کر رہے ہیں۔ بظاہر بلاول اور شہباز کے حاشیہ برداروں کے پاس بھی کوئی معاشی، تجارتی اور تعلیمی منصوبہ نہیں۔ ورنہ ان چھ آٹھ مہینوں میں صرف چین، چین ہی نہ گونج رہا ہوتا۔ کس کو دکھانے کیلئے ورچوئل افتتاح گوادر بندرگاہ کا کیا گیا، جبکہ ہر ملک کو خبر ہے کہ ہم نے اس کو باقاعدہ زیر عمل لانے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں کی۔
جس اشرافیہ کا حوالہ سہیل وڑائچ نے دیا ہے۔ ان سب کو اگر ایک ایک کر کے کھنگالا جائے تو وہ سب اپنی بازی کھیلنے کے علاوہ اپنے خاندانوں کو شاد آباد کر چکے ہیں۔ یہ سب چلی ہوئی بندوقیں ہیں۔ اگر یہ یونہی کارنر میٹنگز کرتے رہے تو جیسے جماعت اسلامی آگے بڑھ رہی ہے اور اسکی خواتین بھی مستعد ہیں۔ ہر چند جماعت اسلامی، طالبان کے مقابل لبرل جماعت ہے۔ پھر بھی دنیا مصنوعی ذہانت کی منزلیں طے کرتی رہے گی۔ اور ہم شہباز کی تقریروں کی جگہ مولانا کے ہم زلف اور دیگر لوگوں کو بھی آزما چکے ہیں بلاول کو اپنے والد کی باقیات کو پہن کر نہیں پوری معیشت کو نئے سرے سے ری شیپ کرنے کے بھاری پتھر کو اٹھانا ہوگا۔
مگر اس کے پاس اور اردگرد جو لوگ ہیں۔ ان سے انقلابی اقدامات کی توقع بے وقوفی ہو گی۔ موجود سیاسی گروہوں کے کلف لگے کپڑوں کی ضرورت نہیں،تمہارے نانا نے کرتا شلوار قمیص پہن کر سوٹوں سے جان چھڑانے اور غریب کی ستر پوشی کیلئےپہلا قدم اٹھایا تھا مگر وہ بھی کوثر نیازی قسم کے لوگوں کے جال میں پھنس گئے تھے اور آخر اس چیف کے جال میں پھنس گئے، جس کو وہ خوشامدی ٹٹو کے نام سے پکارتے تھے۔
ماضی بہت ہو گیا۔ اب خود نواز شریف نے کہا ہے کہ ہم نے75برسوں میں ملک کو آگے لیجانے میں کوتاہی کی۔ ایک ایٹم بم بنانے والے کو بانس پہ چڑھا کر، پھر اس کو ذلیل کرکے معافی نامہ بھی پڑھوایا گیا اور جب اس کا جنازہ جا رہا تھا، تیز بارش کے باوجود عام اور غریب سب اس کو قبر تک پہنچانے کو بن بلائے آگئے تھے۔ اب جو جگہ جگہ شاہد خاقان، امیروں کےگھروں میں ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ عوام نہیں ہیں۔ جس کے ساتھ سوشل میڈیا ہے، وہ نہ پڑھتا ہے نہ لکھتا ہے۔ سیاست اس کے خمیر میں زندان میں رہنے کے باوجود نہیں آئی۔ یہ آخری موقع تھا کہ سب اکٹھے ہونا چاہتے تھے وہ بھی اس نے گنوا دیا۔ وائس چانسلر کی آکسفورڈ فہرست سے اس کا نام نکالنے کے ساتھ جو اس پر لگائے گئے الزامات دہرائے گئے ہیں ۔ ان کو سن کر ملک کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل گئی۔ ہم نے دنیا کی ایک بڑی کانفرنس پر جو خرچہ کیا۔ وہ ہمارے روزمرہ کے خرچوں میں اضافے کی صورت میں ہم سے لیا جارہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بی بی مریم مصنوعی بارش پر کروڑوں خرچ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ اتنے پیسے پاس ہیں تو وہ موجود ہیلتھ یونٹس کو ٹھیک کرنے اور بچوں کو پڑھانے پر صرف کریں۔ پھر جو بچہ آگے نکلتا ہے۔ اُسے لاکھوں کا انعام مت دیں۔ کام کرنا اور کام لینا سکھائیں تو شاید اگلا سال ہمیں کوئی خوشی دے سکے۔